كتاب السهو کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل 35. بَابُ: بَسْطِ الْيُسْرَى عَلَى الرُّكْبَةِ باب: بائیں (ہاتھ) کو گھٹنے پر رکھنے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے، اور جو انگلی انگوٹھے سے لگی ہوتی اسے اٹھاتے، اور اس سے دعا مانگتے، اور آپ کا بایاں ہاتھ آپ کے بائیں گھٹنے پر پھیلا ہوتا تھا، (یعنی: بائیں ہتھیلی کو حلقہ بنانے کے بجائے اس کی ساری انگلیاں بائیں گھٹنے پر پھیلائے رکھتے تھے)۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 21 (580)، سنن الترمذی/الصلاة 105 (294)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 27 (913)، مسند احمد 2/147، (تحفة الأشراف: 8128) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے، اور اسے ہلاتے نہیں تھے ۱؎۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ عمرو نے (اس میں) اضافہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ عامر بن عبداللہ بن زبیر نے مجھے خبر دی، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اسی طرح دعا کرتے، اور آپ اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے بائیں پاؤں کو تھامے رہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 186 (989، 990)، مسند احمد 4/3، سنن الدارمی/الصلاة 83 (1377)، (تحفة الأشراف: 5264) (شاذ) صرف ’’ولا یحرکھا‘‘ کا جملہ شاذ ہے۔»
وضاحت: ۱؎: حدیث کے اس ٹکڑے ”اور اس کو ہلاتے نہیں تھے“ کو بعض علماء نے ”شاذ“ قرار دیا ہے، اور بعض اس کا یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ ”کبھی بھی نہیں ہلاتے تھے، اور صرف اشارہ پر اکتفاء کرتے تھے“ یا یہ مطلب ہے کہ صرف اشارہ کے عمل کو وائل رضی اللہ عنہ نے ”ہلاتے رہتے تھے“ سے تعبیر کر دیا ہے، اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نے اصل حقیقت بیان کر دی ہے، یعنی اشارہ کرتے تھے ہلاتے نہیں تھے، ہمارے خیال میں: تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ اشارہ تو بلاتعیین وقت کرتے تھے، رہی ہلانے کی بات تو کبھی ہلاتے تھے اور کبھی نہیں ہلاتے تھے، جس نے جو دیکھا اسے بیان کر دیا، یا مطلب یہ ہے کہ اشارہ میں انگلی کا ہل جانا بالکل ممکن ہے اس کو وائل رضی اللہ عنہ نے ”ہلاتے تھے“ سے تعبیر کر دیا، اصل کام اشارہ تھا۔ قال الشيخ الألباني: شاذ بزيادة ولا يحركها
|