كتاب الإمامة کتاب: امامت کے احکام و مسائل 28. بَابُ: حَثِّ الإِمَامِ عَلَى رَصِّ الصُّفُوفِ وَالْمُقَارَبَةِ بَيْنَهَا باب: امام کا صفیں درست کرنے اور مل کر کھڑے ہونے کی ترغیب دلانا۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ہماری طرف متوجہ ہوتے، اور اللہ اکبر کہنے سے پہلے فرماتے: ”تم اپنی صفیں درست کر لو، اور سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہو جاؤ، ۱؎ کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف: 595)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 71 (718)، 72 (719)، 76 (725)، صحیح مسلم/الصلاة 28 (434)، ویأتی عند المؤلف برقم: 846 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «تراص» کے معنی اس طرح مل کر کھڑے ہونے کے ہیں جیسے دیوار میں ایک اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ پیوست ہوتی ہے درمیان میں ذرا سا بھی فاصلہ اور شگاف نہیں ہوتا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنی صفیں سیسہ پلائی دیوار کی طرح درست کر لو، اور انہیں ایک دوسرے کے نزدیک رکھو، اور گردنیں ایک دوسرے کے بالمقابل رکھو کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں شیاطین کو صف کے درمیان ۱؎ گھستے ہوئے دیکھتا ہوں جیسے وہ بکری کے کالے بچے ہوں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 94 (667)، (تحفة الأشراف: 1132)، مسند احمد 3/260، 283 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صفوں کے درمیان شگافوں میں شیطان کو گھستے ہوئے دیکھنا یا تو حقیقتاً ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو معجزے کے طور پر یہ منظر دکھایا ہو، یا بذریعہ وحی آپ کو اس سے آگاہ کیا گیا ہو کہ صفوں میں خلا رکھنے سے شیطان خوش ہوتا ہے، اور اسے وسوسہ اندازی کا موقع ملتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور فرمایا: ”کیا تم لوگ صف نہیں باندھو گے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس باندھتے ہیں“، لوگوں نے پوچھا: فرشتے اپنے رب کے پاس کیسے صف باندھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ پہلے اگلی صف پوری کرتے ہیں، پھر وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف میں مل کر کھڑے ہوتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 27 (430) مطولاً، سنن ابی داود/الصلاة 94 (661)، سنن ابن ماجہ/إقامة 50 (992)، (تحفة الأشراف: 2127)، مسند احمد 5/101، 106 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|