كتاب المساجد کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل 7. بَابُ: فَضْلِ مَسْجِدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالصَّلاَةِ فِيهِ باب: مسجد نبوی اور اس میں نماز کی فضیلت کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا افضل ہے سوائے خانہ کعبہ کے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کی مسجد آخری مسجد ہے ۱؎ ابوسلمہ اور ابوعبداللہ کہتے ہیں: ہمیں شک نہیں کہ ابوہریرہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی بیان کرتے تھے، اسی وجہ سے ہم نے ان سے یہ وضاحت طلب نہیں کی کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یا خود ان کا قول ہے، یہاں تک کہ جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تو ہم نے اس کا ذکر کیا تو ہم ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہم نے اس سلسلے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کیوں نہیں گفتگو کر لی کہ اگر انہوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو اسے آپ کی طرف منسوب کریں، ہم اسی تردد میں تھے کہ ہم نے عبداللہ بن ابراہیم بن قارظ کی مجالست اختیار کی، تو ہم نے اس حدیث کا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث پوچھنے میں جو ہم نے کوتاہی کی تھی دونوں کا ذکر کیا، تو عبداللہ بن ابراہیم نے ہم سے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ”بلاشبہ میں آخری نبی ہوں، اور یہ (مسجد نبوی) آخری مسجد ہے“۔
تخریج الحدیث: «من طریق عبداللہ بن إبراہیم بن قارظ عن أبي ہریرة أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 94 (1394)، (تحفة الأشراف: 13551)، مسند احمد 2/251، 273، ومن طریق أبي عبداللہ (سلمان الأغر) عن أبي ہریرة قد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة في مسجد مکة والمدینة 1 (1190)، صحیح مسلم/الحج 94 (1394)، سنن الترمذی/الصلاة 126 (325)، سنن ابن ماجہ/إقامة 195 (1404)، موطا امام مالک/القبلة 5 (9)، مسند احمد 2/256، 386، 466، 473، 485، سنن الدارمی/الصلاة 131 (1458)، (تحفة الأشراف: 13464)، وحدیث أبي سلمة تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14960) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ان تینوں مساجد میں جن کی فضیلت کی گواہی دی گئی ہے مسجد نبوی آخری مسجد ہے، یا انبیاء کی مساجد میں سے آخری مسجد ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حصہ میرے گھر ۱؎ اور میرے منبر کے درمیان ہے وہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة في مسجد مکة والمدینة 5 (1195)، صحیح مسلم/الحج 92 (1390)، موطا امام مالک/القبلة 5 (11)، (تحفة الأشراف: 5300)، مسند احمد 4/39، 40، 41 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: گھر سے مراد حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہے جس میں آپ کی قبر شریف ہے، طبرانی کی روایت میں «ما بين المنبر وبيت عائشة» ہے، اور بزار کی روایت (کشف الاستار۲/۵۶) میں «ما بين قبري ومنبري» ہے۔ ۲؎: اس کی تاویل میں کئی اقوال وارد ہیں ایک قول یہ ہے کہ اتنی جگہ اٹھ کر جنت کی ایک کیاری بن جائے گی، دوسرا قول یہ ہے جو شخص یہاں عبادت کرے گا جنت میں داخل ہو گا، اور جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری پائے گا، تیسرا قول یہ ہے کہ یہ حصہ جنت ہی سے آیا ہوا ہے، چوتھا قول یہ ہے کہ اس میں حرف تشبیہ محذوف ہے «ای کروضۃ فی نزول الرحمۃ والسعادۃ بما یحصل من ملازمۃ حلق الذکر لا سیما فی عہدہ صلی اللہ علیہ وسلم» ”یعنی رحمت و سعادت کے نازل ہونے میں روضہ کی طرح ہے، ذکر کے حلقات کی پابندی سے“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اس منبر کے پائے جنت میں گڑے ہوئے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 18235)، مسند احمد 6/289، 292 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|