عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حصہ میرے گھر ۱؎ اور میرے منبر کے درمیان ہے وہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: گھر سے مراد حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہے جس میں آپ کی قبر شریف ہے، طبرانی کی روایت میں «ما بين المنبر وبيت عائشة» ہے، اور بزار کی روایت (کشف الاستار۲/۵۶) میں «ما بين قبري ومنبري» ہے۔ ۲؎: اس کی تاویل میں کئی اقوال وارد ہیں ایک قول یہ ہے کہ اتنی جگہ اٹھ کر جنت کی ایک کیاری بن جائے گی، دوسرا قول یہ ہے جو شخص یہاں عبادت کرے گا جنت میں داخل ہو گا، اور جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری پائے گا، تیسرا قول یہ ہے کہ یہ حصہ جنت ہی سے آیا ہوا ہے، چوتھا قول یہ ہے کہ اس میں حرف تشبیہ محذوف ہے «ای کروضۃ فی نزول الرحمۃ والسعادۃ بما یحصل من ملازمۃ حلق الذکر لا سیما فی عہدہ صلی اللہ علیہ وسلم»”یعنی رحمت و سعادت کے نازل ہونے میں روضہ کی طرح ہے، ذکر کے حلقات کی پابندی سے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة في مسجد مکة والمدینة 5 (1195)، صحیح مسلم/الحج 92 (1390)، موطا امام مالک/القبلة 5 (11)، (تحفة الأشراف: 5300)، مسند احمد 4/39، 40، 41 (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 696
696 ۔ اردو حاشیہ: ➊ اس روایت کے مفہوم میں مختلف اقوال ہیں: یہ حصہ جنت سے لایا گیا ہے اور جنت میں منتقل کیا جائے گا۔ یہاں عبادت کرنا جنت میں جانے کا حتمی ذریعہ ہے۔ یہ حصہ نزول رحمت الٰہی میں جنت کی طرح ہے۔ آخری دو مفہوم زیادہ مناسب ہیں گویا آپ کے قدم ہائے مبارکہ کی بکثرت تشریف کی بنا پر یہ حصہ جنت نظیر بن گیا۔ سبحان اللہ و بحمدہ، سبحان اللہ العظیم۔ ➋ ”میرے گھر“ سے مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ ہے۔ ریاض الجنہ کی پیمائش تقریباً 75 x 75 (فٹ) ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 696