كتاب المساجد کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل 18. بَابُ: ضَرْبِ الْخِبَاءِ فِي الْمَسَاجِدِ باب: مسجد میں خیمہ لگانے کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر پڑھتے، پھر آپ اس جگہ میں داخل ہو جاتے جہاں آپ اعتکاف کرنے کا ارادہ فرماتے، چنانچہ آپ نے ایک رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا ارادہ فرمایا، تو آپ نے (خیمہ لگانے کا) حکم دیا تو آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، پھر جب ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے ان کے خیمے دیکھے تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیمے دیکھے تو فرمایا: ”کیا تم لوگ اس سے نیکی کا ارادہ رکھتی ہو؟“ ۱؎، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سال) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا (اور اس کے بدلے) شوال میں دس دنوں کا اعتکاف کیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاعتکاف 6 (2033)، 7 (2034)، 14 (2041)، 18 (2045)، صحیح مسلم/الاعتکاف 2 (1172)، سنن ابی داود/الصوم 77 (2464)، سنن الترمذی/الصوم 71 (791) مختصراً، سنن ابن ماجہ/الصوم 59 (1771)، (تحفة الأشراف: 17930)، مسند احمد 6/84، 226 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ تم لوگوں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یہ خیمے لگائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: غزوہ خندق (غزوہ احزاب) کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے، قبیلہ قریش کے ایک شخص نے ان کے ہاتھ کی رگ ۱؎ میں تیر مارا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگایا تاکہ آپ قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 77 (463) مطولاً، المغازي 30 (4122) مطولاً، صحیح مسلم/الجھاد 22 (1769)، سنن ابی داود/الجنائز 8 (3101)، (تحفة الأشراف: 16978)، مسند احمد 6/56، 131، 280 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «اکحل» ہاتھ میں ایک رگ ہوتی ہے جسے «عرق الحیاۃ» کہتے ہیں اگر وہ کٹ جائے تو خون رکتا نہیں سارا خون بہہ جاتا ہے، اور آدمی مر جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|