ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک «صور» والے دونوں فرشتے اپنے ہاتھوں میں «صور»۱؎ لیے برابر دیکھتے رہتے ہیں کہ کب پھونکنے کا حکم ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4193، ومصباح الزجاجة: 1529) (منکر)» (سند میں حجاج بن ارطاہ وعطیہ العوفی ضعیف ہیں، اور حجاج نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اس لئے یہ لفظ منکر ہے، محفوظ حدیث «صاحب القرن» ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1079)
وضاحت: ۱؎: «صور» کی جمع «اصوار» یعنی نرسنگا، اور بگل۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا علي بن مسهر , عن محمد بن عمرو , عن ابي سلمة , عن ابي هريرة , قال: قال رجل من اليهود بسوق المدينة: والذي اصطفى موسى على البشر , فرفع رجل من الانصار يده فلطمه , قال: تقول هذا وفينا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال:" قال الله عز وجل: ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الارض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه اخرى فإذا هم قيام ينظرون سورة الزمر آية 68 , فاكون اول من رفع راسه , فإذا انا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش , فلا ادري ارفع راسه قبلي , او كان ممن استثنى الله عز وجل , ومن قال انا خير من يونس بن متى , فقد كذب". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ بِسُوقِ الْمَدِينَةِ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ , فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَدَهُ فَلَطَمَهُ , قَالَ: تَقُولُ هَذَا وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ سورة الزمر آية 68 , فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ , فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ , فَلَا أَدْرِي أَرَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلِي , أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , وَمَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى , فَقَدْ كَذَبَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام لوگوں سے برگزیدہ بنایا، یہ سن کر ایک انصاری نے اس کو ایک طمانچہ مارا، اور کہا: تم ایسا کہتے ہو جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون»”اور صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان والے سب بیہوش ہو جائیں گے، سوائے اس کے جس کو اللہ چاہے، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تب وہ سب کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے“(سورۃ الزمر: ۶۸)، میں سب سے پہلے اپنا سر اٹھاؤں گا، تو دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں، میں نہیں جانتا کہ انہوں نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا، یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ کر دیا ہے، اور جس نے یہ کہا: میں یونس بن متی سے بہتر ہوں تو اس نے غلط کہا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یونس علیہ السلام سے غلطی ہوئی تھی، لیکن اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا تھا، رسول اکرم ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کی شان بڑی ہے اور نبوت اور رسالت کا مرتبہ سب کو حاصل ہے لہذا اپنی رائے سے ایک کو دوسرے پر فضیلت مت دو، بعضوں نے کہا کہ یہ حدیث پہلے کی ہے، جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ آپ تمام انبیاء کے سردار ہیں اور انجیل مقدس میں مذکور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ اس جہاں کا سردار آتا ہے، یا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک نبی کو دوسرے نبی پر اس طرح فضیلت مت دو کہ دوسرے نبی کی تحقیر یا توہین نکلے کیونکہ کسی نبی کی تحقیر یا توہین کفر ہے۔
(قدسي) حدثنا هشام بن عمار , ومحمد بن الصباح , قالا: حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم , حدثني ابي , عن عبيد الله بن مقسم , عن عبد الله بن عمر , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر , يقول:" ياخذ الجبار سماواته وارضيه بيده , وقبض يده فجعل يقبضها ويبسطها , ثم يقول: انا الجبار , انا الملك , اين الجبارون؟ اين المتكبرون؟" , قال: ويتمايل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن يمينه وعن شماله , حتى نظرت إلى المنبر يتحرك من اسفل شيء منه , حتى إني لاقول , اساقط هو برسول الله صلى الله عليه وسلم. (قدسي) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ , يَقُولُ:" يَأْخُذُ الْجَبَّارُ سَمَاوَاتِهِ وَأَرَضِيهِ بِيَدِهِ , وَقَبَضَ يَدَهُ فَجَعَلَ يَقْبِضُهَا وَيَبْسُطُهَا , ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْجَبَّارُ , أَنَا الْمَلِكُ , أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟" , قَالَ: وَيَتَمَايَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ , حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ يَتَحَرَّكُ مِنْ أَسْفَلِ شَيْءٍ مِنْهُ , حَتَّى إِنِّي لَأَقُولُ , أَسَاقِطٌ هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا: ”جبار (اللہ) آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا، (آپ نے مٹھی بند کی پھر اس کو بند کرنے اور کھولنے لگے) پھر فرمائے گا: میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں دوسرے جبار؟ کہاں ہیں دوسرے متکبر؟ یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں جھک رہے تھے، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ منبر کچھ نیچے سے ہل رہا تھا، حتیٰ کہ میں کہنے لگا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گر نہ پڑے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/صفة القیامة نحوہ (2788)، (تحفة الأشراف: 7315)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/72، 87) (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگ قیامت کے دن کیسے اٹھائے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ننگے پاؤں، ننگے بدن“، میں نے کہا: عورتیں بھی اسی طرح؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتیں بھی“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! پھر شرم نہیں آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! معاملہ اتنا سخت ہو گا کہ (کوئی) ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھے گا“۱؎۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی، دوبار کی پیشی میں بحث و تکرار اور عذر و بہانے ہوں گے اور تیسری بار میں اعمال نامے ہاتھوں میں اڑ رہے ہوں گے، تو کوئی اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں اور کوئی بائیں ہاتھ میں پکڑے ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8986، ومصباح الزجاجة: 1532)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/414) (ضعیف)» (حسن بصری کا سماع ابوموسیٰ سے ثابت نہیں ہے، اس لئے انقطاع کی وجہ سے سند ضعیف ہے)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے: «يوم يقوم الناس لرب العالمين»”جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے“(سورۃ المطففین: ۶) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ”لوگ اس طرح کھڑے ہوں گے کہ نصف کان تک اپنے پسینے میں غرق ہوں گے“۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا علي بن مسهر , عن داود , عن الشعبي , عن مسروق , عن عائشة , قالت: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم , عن قولة: يوم تبدل الارض غير الارض والسموات سورة إبراهيم آية 48، سورة إبراهيم آية 48 فاين تكون الناس يومئذ؟ قال:" على الصراط". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ , عَنْ دَاوُدَ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , عن قَوْلةِ: يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ سورة إبراهيم آية 48، سورة إبراهيم آية 48 فَأَيْنَ تَكُونُ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" عَلَى الصِّرَاطِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «يوم تبدل الأرض غير الأرض والسموات»”جس دن زمین اور آسمان بدل دئیے جائیں گے“(سورة إبراهيم: 48) سے متعلق پوچھا کہ لوگ اس وقت کہاں ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پل صراط پر“۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پل صراط جہنم کے دونوں کناروں پر رکھا جائے گا، اس پر سعدان کے کانٹوں کی طرح کانٹے ہوں گے، پھر لوگ اس پر سے گزرنا شروع کریں گے، تو بعض لوگ صحیح سلامت گزر جائیں گے، بعض کے کچھ اعضاء کٹ کر جہنم میں گر پڑیں گے، پھر نجات پائیں گے، بعض اسی پر اٹکے رہیں گے، اور بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4068، ومصباح الزجاجة: 1530)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان 81 (283)، مسند احمد (2/293، 3/11، 17) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا ابو معاوية , عن الاعمش , عن ابي سفيان , عن جابر , عن ام مبشر , عن حفصة , قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إني لارجو الا يدخل النار احد إن شاء الله تعالى ممن شهد بدرا , والحديبية" , قالت: قلت: يا رسول الله , اليس قد قال الله: وإن منكم إلا واردها كان على ربك حتما مقضيا سورة مريم آية 71 , قال:" الم تسمعيه , يقول: ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا سورة مريم آية 72". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ جَابِرٍ , عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ , عَنْ حَفْصَةَ , قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأَرْجُو أَلَّا يَدْخُلَ النَّارَ أَحَدٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا , وَالْحُدَيْبِيَةَ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا سورة مريم آية 71 , قَالَ:" أَلَمْ تَسْمَعِيهِ , يَقُولُ: ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا سورة مريم آية 72".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے امید ہے جو لوگ بدر و حدیبیہ کی جنگوں میں شریک تھے، ان میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا، «إ ن شاء اللہ» اگر اللہ نے چاہا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے: «وإن منكم إلا واردها كان على ربك حتما مقضيا»”تم میں سے ہر ایک کو اس میں وارد ہونا ہے، یہ تیرے رب کا حتمی فیصلہ ہے“(سورة مريم: 71)؟، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا: «ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا»”پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں اوندھے منہ چھوڑ دیں گے“(سورة مريم: 72“۔