(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يزيد بن هارون , انبانا عبد الملك , عن عطاء , عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إن لله مائة رحمة , قسم منها رحمة بين جميع الخلائق , فبها يتراحمون , وبها يتعاطفون , وبها تعطف الوحش على اولادها , واخر تسعة وتسعين رحمة , يرحم بها عباده يوم القيامة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ , قَسَمَ مِنْهَا رَحْمَةً بَيْنَ جَمِيعِ الْخَلَائِقِ , فَبِهَا يَتَرَاحَمُونَ , وَبِهَا يَتَعَاطَفُونَ , وَبِهَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَى أَوْلَادِهَا , وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ رَحْمَةً , يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت کو تمام مخلوقات کے درمیان تقسیم کر دیا ہے، اسی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر رحم اور شفقت کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے وحشی جانور اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں محفوظ کر رکھی ہیں، ان کے ذریعے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم کرے گا“۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب , واحمد بن سنان , قالا: حدثنا ابو معاوية , عن الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي سعيد , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خلق الله عز وجل , يوم خلق السموات والارض , مائة رحمة , فجعل في الارض منها رحمة , فبها تعطف الوالدة على ولدها , والبهائم بعضها على بعض , والطير , واخر تسعة وتسعين إلى يوم القيامة , فإذا كان يوم القيامة , اكملها الله بهذه الرحمة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ , وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ , مِائَةَ رَحْمَةٍ , فَجَعَلَ فِي الْأَرْضِ مِنْهَا رَحْمَةً , فَبِهَا تَعْطِفُ الْوَالِدَةُ عَلَى وَلَدِهَا , وَالْبَهَائِمُ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ , وَالطَّيْرُ , وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ , أَكْمَلَهَا اللَّهُ بِهَذِهِ الرَّحْمَةِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، سو رحمتیں پیدا کیں، زمین میں ان سو رحمتوں میں سے ایک رحمت بھیجی، اسی کی وجہ سے ماں اپنے بچے پر رحم کرتی ہے، اور چرند و پرند جانور بھی ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، اور ننانوے رحمتوں کو اس نے قیامت کے دن کے لیے اٹھا رکھا ہے، جب قیامت کا دن ہو گا، تو اللہ تعالیٰ ان رحمتوں کو پورا کرے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4024، ومصباح الزجاجة: 1538)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/55) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ عزوجل نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر یہ لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب , حدثنا ابو عوانة , حدثنا عبد الملك بن عمير , عن ابن ابي ليلى , عن معاذ بن جبل , قال: مر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا على حمار , فقال:" يا معاذ , هل تدري ما حق الله على العباد؟ وما حق العباد على الله؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق الله على العباد ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا , وحق العباد على الله إذا فعلوا ذلك ان لا يعذبهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ , حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَى حِمَارٍ , فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ , هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا , وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گزرے اور میں ایک گدھے پر سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے“؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جب وہ ایسا کریں تو وہ ان کو عذاب نہ دے“۔
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا إبراهيم بن اعين , حدثنا إسماعيل بن يحيى الشيباني , عن عبد الله بن عمر بن حفص , عن نافع , عن ابن عمر , قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض غزواته , فمر بقوم , فقال:" من القوم" , فقالوا: نحن المسلمون , وامراة تحصب تنورها , ومعها ابن لها , فإذا ارتفع وهج التنور , تنحت به , فاتت النبي صلى الله عليه وسلم , فقالت: انت رسول الله؟ قال:" نعم" , قالت: بابي انت وامي اليس الله بارحم الراحمين؟ قال:" بلى" , قالت: اوليس الله بارحم بعباده من الام بولدها؟ قال:" بلى" , قالت: فإن الام لا تلقي ولدها في النار , فاكب رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكي ثم رفع راسه إليها , فقال:" إن الله لا يعذب من عباده إلا المارد المتمرد , الذي يتمرد على الله , وابى ان يقول: لا إله إلا الله". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَعْيَنَ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ يَحْيَى الشَّيْبَانِيُّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ حَفْصٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ غَزَوَاتِهِ , فَمَرَّ بِقَوْمٍ , فَقَالَ:" مَنِ الْقَوْمُ" , فَقَالُوا: نَحْنُ الْمُسْلِمُونَ , وَامْرَأَةٌ تَحْصِبُ تَنُّورَهَا , وَمَعَهَا ابْنٌ لَهَا , فَإِذَا ارْتَفَعَ وَهَجُ التَّنُّورِ , تَنَحَّتْ بِهِ , فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ" , قَالَتْ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَرْحَمِ الرَّاحِمِينَ؟ قَالَ:" بَلَى" , قَالَتْ: أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَرْحَمَ بِعِبَادِهِ مِنَ الْأُمِّ بِوَلَدِهَا؟ قَالَ:" بَلَى" , قَالَتْ: فَإِنَّ الْأُمَّ لَا تُلْقِي وَلَدَهَا فِي النَّارِ , فَأَكَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهَا , فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ مِنْ عِبَادِهِ إِلَّا الْمَارِدَ الْمُتَمَرِّدَ , الَّذِي يَتَمَرَّدُ عَلَى اللَّهِ , وَأَبَى أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے کہ آپ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو پوچھا: ”تم کون لوگ ہو“؟ انہوں نے کہا: ہم مسلمان ہیں، ان میں ایک عورت تنور میں ایندھن جھوک رہی تھی، اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا، جب تنور کی آگ بھڑک اٹھی وہ اپنے بیٹے کو لے کر ہٹ گئی، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ عورت نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا اللہ سارے رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں“ وہ بولی: کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم نہیں کرے گا جتنا ماں اپنے بچے پر کرتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں“؟ اس نے کہا: ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر جھکا دیا، اور روتے رہے پھر اپنا سر اٹھایا، اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں کو عذاب دے گا جو بہت سرکش و شریر ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کے باغی ہوتے ہیں اور «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کرتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7739، ومصباح الزجاجة: 1539) (موضوع)» (سند میں اسماعیل بن یحییٰ متہم بالکذب ہے، اور عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم میں کوئی نہیں جائے گا سوائے بدبخت کے“ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! بدبخت کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کبھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کی، اور کوئی گناہ نہ چھوڑا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12974، ومصباح الزجاجة: 1540)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/349) (ضعیف)» (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں)
(قدسي) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا زيد بن الحباب , حدثنا سهيل بن عبد الله اخو حزم القطعي , حدثنا ثابت البناني , عن انس بن مالك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قرا او تلا هذه الآية: هو اهل التقوى واهل المغفرة سورة المدثر آية 56 , فقال: قال الله عز وجل: انا اهل ان اتقى , فلا يجعل معي إله آخر , فمن اتقى ان يجعل معي إلها آخر , فانا اهل ان اغفر له" , قال ابو الحسن القطان: حدثناه إبراهيم بن نصر , حدثنا هدبة بن خالد , حدثنا سهيل بن ابي حزم , عن ثابت , عن انس , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال في هذه الآية: هو اهل التقوى واهل المغفرة سورة المدثر آية 56 , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قال ربكم: انا اهل ان اتقى فلا يشرك بي غيري , وانا اهل لمن اتقى ان يشرك بي ان اغفر له". (قدسي) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ , حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَخُو حَزْمٍ الْقُطَعِيِّ , حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَرَأَ أَوْ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ سورة المدثر آية 56 , فَقَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا أَهْلٌ أَنْ أُتَّقَى , فَلَا يُجْعَلْ مَعِي إِلَهٌ آخَرُ , فَمَنِ اتَّقَى أَنْ يَجْعَلَ مَعِي إِلَهًا آخَرَ , فَأَنَا أَهْلٌ أَنْ أَغْفِرَ لَهُ" , قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ: حَدَّثَنَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَصْرٍ , حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي حَزْمٍ , عَنْ ثَابِتٍ , عَنْ أَنَسٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ سورة المدثر آية 56 , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَالَ رَبُّكُمْ: أَنَا أَهْلٌ أَنْ أُتَّقَى فَلَا يُشْرَكَ بِي غَيْرِي , وَأَنَا أَهْلٌ لِمَنِ اتَّقَى أَنْ يُشْرِكَ بِي أَنْ أَغْفِرَ لَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت: «هو أهل التقوى وأهل المغفرة» یعنی ”اللہ ہی سے ڈرنا چاہیئے اور وہی گناہ بخشنے کا اہل ہے“(سورۃ المدثر: ۵۶) تلاوت فرمائی، اور فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے میں اس کے لائق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، اور میرے ساتھ کوئی اور معبود نہ بنایا جائے، تو جو میرے ساتھ کوئی دوسرا معبود بنانے سے بچے تو میں ہی اس کا اہل ہوں کہ اس کو بخش دوں“ دوسری سند اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت: «هو أهل التقوى وأهل المغفرة» کے بارے میں کہ تمہارے رب نے فرمایا: ”میں ہی اس بات کا اہل ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کیا جائے، اور جو میرے ساتھ شریک کرنے سے بچے میں اہل ہوں اس بات کا کہ اسے بخش دوں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 70 (3328)، (تحفة الأشراف: 434)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/142، 243)، سنن الدارمی/الرقاق 16 (2766) (ضعیف) (سند میں سہیل بن عبد اللہ ضعیف ہیں)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى , حدثنا ابن ابي مريم , حدثنا الليث , حدثني عامر بن يحيى , عن ابي عبد الرحمن الحبلي , قال: سمعت عبد الله بن عمرو , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يصاح برجل من امتي يوم القيامة على رءوس الخلائق , فينشر له تسعة وتسعون سجلا , كل سجل مد البصر , ثم يقول الله عز وجل: هل تنكر من هذا شيئا , فيقول: لا يا رب , فيقول: اظلمتك كتبتي الحافظون , ثم يقول: الك عذرا؟ الك عن ذلك حسنة؟ فيهاب الرجل فيقول: لا , فيقول: بلى , إن لك عندنا حسنات , وإنه لا ظلم عليك اليوم , فتخرج له بطاقة فيها: اشهد ان لا إله إلا الله , وان محمدا عبده ورسوله , قال: فيقول: يا رب , ما هذه البطاقة مع هذه السجلات , فيقول: إنك لا تظلم , فتوضع السجلات في كفة والبطاقة في كفة , فطاشت السجلات وثقلت البطاقة" , قال محمد بن يحيى: البطاقة الرقعة , واهل مصر يقولون للرقعة: بطاقة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ يَحْيَى , عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُصَاحُ بِرَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ , فَيُنْشَرُ لَهُ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ سِجِلًّا , كُلُّ سِجِلٍّ مَدَّ الْبَصَرِ , ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: هَلْ تُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا , فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ , فَيَقُولُ: أَظَلَمَتْكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ , ثُمَّ يَقُولُ: أَلَكَ عُذْرًا؟ أَلَكَ عنْ ذَلِكَ حَسَنَةٌ؟ فَيُهَابُ الرَّجُلُ فَيَقُولُ: لَا , فَيَقُولُ: بَلَى , إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَاتٍ , وَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ , فَتُخْرَجُ لَهُ بِطَاقَةٌ فِيهَا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ , قَالَ: فَيَقُولُ: يَا رَبِّ , مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ , فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ , فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كِفَّةٍ وَالْبِطَاقَةُ فِي كِفَّةٍ , فَطَاشَتِ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَةُ" , قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: الْبِطَاقَةُ الرُّقْعَةُ , وَأَهْلُ مِصْرَ يَقُولُونَ لِلرُّقْعَةِ: بِطَاقَةً.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے میری امت کے ایک شخص کی پکار ہو گی، اور اس کے ننانوے دفتر پھیلا دئیے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا ہو گا، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا: کیا تم اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو؟ وہ کہے گا: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میرے محافظ کاتبوں نے تم پر ظلم کیا ہے؟ پھر فرمائے گا: کیا تمہارے پاس کوئی نیکی بھی ہے؟ وہ آدمی ڈر جائے گا، اور کہے گا: نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: نہیں، ہمارے پاس کئی نیکیاں ہیں، اور آج کے دن تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر «أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله» لکھا ہو گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں، وہ سارے دفتر ہلکے پڑ جائیں گے اور پرچہ بھاری ہو گا ۱؎۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں: «بطاقہ» پرچے کو کہتے ہیں، اہل مصر رقعہ کو «بطاقہ» کہتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الایمان 17 (2639)، (تحفة الأشراف: 8855)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/213، 221) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث «حدیث بطاقہ» کے نام سے مشہور ہے، اور اس میں گنہگار مسلمانوں کے لئے بڑی امید ہے، شرط یہ ہے کہ ان کا خاتمہ ایمان پر ہو۔