مستورد رضی اللہ عنہ (جو بنی فہر کے ایک فرد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے، اور پھر دیکھے کہ کتنا پانی اس کی انگلی میں واپس آتا ہے“۔
(مرفوع) حدثنا يحيى بن حكيم , حدثنا ابو داود , حدثنا المسعودي , اخبرني عمرو بن مرة , عن إبراهيم , عن علقمة , عن عبد الله , قال: اضطجع النبي صلى الله عليه وسلم على حصير فاثر في جلده , فقلت: بابي وامي يا رسول الله , لو كنت آذنتنا ففرشنا لك عليه شيئا يقيك منه , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما انا والدنيا , إنما انا والدنيا كراكب استظل تحت شجرة , ثم راح وتركها". (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ , حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ , أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عَلْقَمَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: اضْطَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ فَأَثَّرَ فِي جِلْدِهِ , فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ , لَوْ كُنْتَ آذَنْتَنَا فَفَرَشْنَا لَكَ عَلَيْهِ شَيْئًا يَقِيكَ مِنْهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَنَا وَالدُّنْيَا , إِنَّمَا أَنَا وَالدُّنْيَا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ , ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے تو آپ کے بدن مبارک پر اس کا نشان پڑ گیا، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں حکم دیتے تو ہم آپ کے لیے اس پر کچھ بچھا دیتے، آپ اس تکلیف سے بچ جاتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو دنیا میں ایسے ہی ہوں جیسے کوئی مسافر درخت کے سائے میں آرام کرے، پھر اس کو چھوڑ کر وہاں سے چل دے“۔
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذو الحلیفہ میں تھے کہ وہاں ایک مردہ بکری اپنے پاؤں اٹھائے ہوئے پڑی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو کیا تم یہ جانتے ہو کہ یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک ذلیل و بے وقعت ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جتنی یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک بے قیمت ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ بے وقعت ہے، اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ اس سے کافر کو ایک قطرہ بھی نہ چکھاتا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4675، ومصباح الزجاجة: 1456)، وقد أخرجہ: (حم1/391، 441) (صحیح)» (سند میں زکریا بن منظور ضعیف ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 686- 943- 3482)
مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک قافلے میں تھا کہ آپ بکری کے ایک پڑے ہوئے مردہ بچے کے پاس آئے، اور فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ یہ اپنے مالک کے نزدیک حقیر و بے وقعت ہے“؟ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اس کی بے وقعتی ہی کی وجہ سے اس کو یہاں ڈالا گیا ہے، یا اسی طرح کی کوئی بات کہی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل و حقیر ہے جتنی یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک حقیر و بے وقعت ہے“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کی یاد کے، اور اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، یا عالم کے یا متعلم کے“۔
(مرفوع) حدثنا يحيى بن حبيب بن عربي , حدثنا حماد بن زيد , عن ليث , عن مجاهد , عن ابن عمر , قال: اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعض جسدي , فقال:" يا عبد الله , كن في الدنيا كانك غريب , او كانك عابر سبيل , وعد نفسك من اهل القبور". (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ جَسَدِي , فَقَالَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ , كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ , أَوْ كَأَنَّكَ عَابِرُ سَبِيلٍ , وَعُدَّ نَفْسَكَ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے جسم کا بعض حصہ (کندھا) تھاما اور فرمایا: ”عبداللہ! دنیا میں ایسے رہو گویا تم اجنبی ہو یا مسافر، اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزھد 15 (2333)، (تحفة الأشراف: 7386)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق 3 (6418)، من طریق محمد بن عبد الرحمن الطفاوی عن الأعمش عن مجاہد بن جبر ابن عمر، مسند احمد (2/24، 132) (صحیح)» (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف راوی ہیں، اسے لئے «وعد نفسك من أهل القبور» کا جملہ ضعیف ہے، لیکن بقیہ حدیث صحیح ہے، کمافی التخریج)