(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا عمرو بن واقد القرشي , حدثنا يونس بن ميسرة بن حلبس , عن ابي إدريس الخولاني , عن ابي ذر الغفاري , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس الزهادة في الدنيا بتحريم الحلال , ولا في إضاعة المال , ولكن الزهادة في الدنيا ان لا تكون بما في يديك اوثق منك بما في يد الله , وان تكون في ثواب المصيبة إذا اصبت بها , ارغب منك فيها لو انها ابقيت لك" , قال هشام: كان ابو إدريس الخولاني , يقول: مثل هذا الحديث في الاحاديث كمثل الإبريز في الذهب. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ الْقُرَشِيُّ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ , عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ , عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا بِتَحْرِيمِ الْحَلَالِ , وَلَا فِي إِضَاعَةِ الْمَالِ , وَلَكِنْ الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا أَنْ لَا تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِنْكَ بِمَا فِي يَدِ اللَّهِ , وَأَنْ تَكُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أُصِبْتَ بِهَا , أَرْغَبَ مِنْكَ فِيهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَكَ" , قَال هِشَامٌ: كَانَ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ , يَقُولُ: مِثْلُ هَذَا الْحَدِيثِ فِي الْأَحَادِيثِ كَمِثْلِ الْإِبْرِيزِ فِي الذَّهَبِ.
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا میں زہد آدمی کے حلال کو حرام کر لینے، اور مال کو ضائع کرنے میں نہیں ہے، بلکہ دنیا میں زہد (دنیا سے بے رغبتی) یہ ہے کہ جو مال تمہارے ہاتھ میں ہے، اس پر تم کو اس مال سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور دنیا میں جو مصیبت تم پر آئے تو تم اس پر خوش ہو بہ نسبت اس کے کہ مصیبت نہ آئے، اور آخرت کے لیے اٹھا رکھی جائے“۔ ہشام کہتے ہیں: کہ ابوادریس خولانی کہتے تھے کہ حدیثوں میں یہ حدیث ایسی ہے جیسے سونے میں کندن۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزہد 29 (2340)، (تحفة الأشراف: 11935) (ضعیف جدا)» (سند میں عمرو بن واقد متروک ہے)
ابوخلاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو دنیا کی طرف سے بے رغبت ہے، اور کم گو بھی تو اس سے قربت اختیار کرو، کیونکہ وہ حکمت و دانائی کی بات بتائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11899، ومصباح الزجاجة: 1451) (ضعیف)» (سند میں ابوفروہ یزید بن سنان جزری ضعیف ہیں)
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے میں کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے، اور لوگ بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا سے بے رغبتی رکھو، اللہ تم کو محبوب رکھے گا، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے نیاز ہو جاؤ، تو لوگ تم سے محبت کریں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4687، ومصباح الزجاجة: 1452) (صحیح)» (سند میں خالد بن عمرو کو ابن معین نے جھوٹ سے متہم کیا ہے، اور صالح جزرہ وغیرہ نے اس کی طرف وضع حدیث کی نسبت کی ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر اصل حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 944)
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح , انبانا جرير , عن منصور , عن ابي وائل , عن سمرة بن سهم , رجل من قومه , قال: نزلت على ابي هاشم بن عتبة وهو طعين , فاتاه معاوية يعوده , فبكى ابو هاشم , فقال معاوية: ما يبكيك؟ اي خال اوجع يشئزك , ام على الدنيا فقد ذهب صفوها , قال: على كل لا , ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي عهدا وددت اني كنت تبعته , قال:" إنك لعلك تدرك اموالا تقسم بين اقوام , وإنما يكفيك من ذلك خادم ومركب في سبيل الله" , فادركت فجمعت. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , عَنْ سَمُرَةَ بْنِ سَهْمٍ , رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ , قَالَ: نَزَلْتُ عَلَى أَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ طَعِينٌ , فَأَتَاهُ مُعَاوِيَةُ يَعُودُهُ , فَبَكَى أَبُو هَاشِمٍ , فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا يُبْكِيكَ؟ أَيْ خَالِ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ , أَمْ عَلَى الدُّنْيَا فَقَدْ ذَهَبَ صَفْوُهَا , قَالَ: عَلَى كُلٍّ لَا , وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ تَبِعْتُهُ , قَالَ:" إِنَّكَ لَعَلَّكَ تُدْرِكُ أَمْوَالًا تُقْسَمُ بَيْنَ أَقْوَامٍ , وَإِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ ذَلِكَ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" , فَأَدْرَكْتُ فَجَمَعْتُ.
سمرہ بن سہم کہتے ہیں کہ میں ابوہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، وہ برچھی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کو آئے تو ابوہاشم رضی اللہ عنہ رونے لگے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ماموں جان! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا درد کی شدت سے رو رہے ہیں یا دنیا کی کسی اور وجہ سے؟ دنیا کا تو بہترین حصہ گزر چکا ہے، ابوہاشم رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان میں سے کسی بھی وجہ سے نہیں رو رہا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک نصیحت کی تھی، کاش! میں اس پر عمل کئے ہوتا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”شاید تم ایسا زمانہ پاؤ، جب لوگوں کے درمیان مال تقسیم کیا جائے، تو تمہارے لیے اس میں سے ایک خادم اور راہ جہاد کے لیے ایک سواری کافی ہے، لیکن میں نے مال پایا، اور جمع کیا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزہد 19 (2327)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ (5374)، (تحفة الأشراف: 12178)، وقد أخرجہ: (حم 5/290) (حسن)» (سند میں سمرہ بن سہم مجہول ہیں، لیکن شواہد سے تقو یت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 5185 وصحیح الترغیب)
وضاحت: ۱؎: تو اس پر روتا ہوں کہ آپ ﷺ کی نصیحت پر عمل نہ کر سکا، دوسری روایت میں ہے کہ دنیا میں سے تم کو ایک خادم، ایک سواری اور ایک گھر کافی ہے، اس سے زیادہ جمع کر کے رکھنا ضروری نہیں، دوسرے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دے دے، خود کھائے، دوسروں کو کھلائے، رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے، یتیموں بیواؤں کی پرورش کرے، مفید عام کاموں میں صرف کرے جیسے مدارس و مساجد بنانے میں، یتیم خانہ اور مسافر خانہ کی تعمیر میں، کنویں اور سڑک کی تعمیر میں، دینی اور اسلامی کتابیں چھاپنے، اور تقسیم کرنے میں، مگر ہزاروں لاکھوں میں کوئی ایسا بندہ ہوتا ہے جو دنیا کو بالکل جمع نہیں کرتا۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن ابي الربيع , حدثنا عبد الرزاق , حدثنا جعفر بن سليمان , عن ثابت , عن انس , قال: اشتكى سلمان , فعاده سعد فرآه يبكي , فقال له سعد: ما يبكيك يا اخي , اليس قد صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ اليس اليس , قال سلمان : ما ابكي واحدة من اثنتين , ما ابكي ضنا للدنيا , ولا كراهية للآخرة , ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي عهدا فما اراني إلا قد تعديت , قال: وما عهد إليك؟ قال:" عهد إلي انه يكفي احدكم مثل زاد الراكب , ولا اراني إلا قد تعديت , واما انت يا سعد , فاتق الله عند حكمك إذا حكمت , وعند قسمك إذا قسمت , وعند همك إذا هممت" , قال ثابت: فبلغني انه ما ترك إلا بضعة وعشرين درهما , من نفقة كانت عنده. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ ثَابِتٍ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: اشْتَكَى سَلْمَانُ , فَعَادَهُ سَعْدٌ فَرَآهُ يَبْكِي , فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا يُبْكِيكَ يَا أَخِي , أَلَيْسَ قَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَلَيْسَ أَلَيْسَ , قَالَ سَلْمَانُ : مَا أَبْكِي وَاحِدَةً مِنَ اثْنَتَيْنِ , مَا أَبْكِي ضِنًّا لِلدُّنْيَا , وَلَا كَرَاهِيَةً لِلْآخِرَةِ , وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا فَمَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ تَعَدَّيْتُ , قَالَ: وَمَا عَهِدَ إِلَيْكَ؟ قَالَ:" عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ يَكْفِي أَحَدَكُمْ مِثْلُ زَادِ الرَّاكِبِ , وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ تَعَدَّيْتُ , وَأَمَّا أَنْتَ يَا سَعْدُ , فَاتَّقِ اللَّهَ عِنْدَ حُكْمِكَ إِذَا حَكَمْتَ , وَعِنْدَ قَسْمِكَ إِذَا قَسَمْتَ , وَعِنْدَ هَمِّكَ إِذَا هَمَمْتَ" , قَالَ ثَابِتٌ: فَبَلَغَنِي أَنَّهُ مَا تَرَكَ إِلَّا بِضْعَةً وَعِشْرِينَ دِرْهَمًا , مِنْ نَفَقَةٍ كَانَتْ عِنْدَهُ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لیے آئے اور ان کو روتا ہوا پایا، سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میرے بھائی آپ کس لیے رو رہے ہیں؟ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض نہیں اٹھایا؟ کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان دونوں میں سے کسی بھی وجہ سے نہیں رو رہا، نہ تو دنیا کی حرص کی وجہ سے اور نہ اس وجہ سے کہ آخرت کو ناپسند کرتا ہوں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک نصیحت کی تھی، جہاں تک میرا خیال ہے میں نے اس سلسلے میں زیادتی کی ہے، سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کیا نصیحت تھی؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”تم میں سے کسی کے لیے بھی دنیا میں اتنا ہی کافی ہے جتنا کہ مسافر کا توشہ، لیکن میں نے اس سلسلے میں زیادتی کی ہے، اے سعد! جب آپ فیصلہ کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، جب کچھ تقسیم کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، اور جب کسی کام کا قصد کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر کرنا۔ ثابت (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ مجھے پتہ چلا کہ سلمان رضی اللہ عنہ نے بیس سے چند زائد درہم کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا، وہ بھی اپنے خرچ میں سے۔