سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
3. بَابُ : مَثَلِ الدُّنْيَا
باب: دنیا کی مثال۔
حدیث نمبر: 4111
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيِّ , عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ الْهَمْدَانِيِّ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُسْتَوْرِدُ بْنُ شَدَّادٍ , قَالَ: إِنِّي لَفِي الرَّكْبِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِذْ أَتَى عَلَى سَخْلَةٍ مَنْبُوذَةٍ , قَالَ: فَقَالَ:" أَتُرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا؟" , قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا أَوْ كَمَا قَالَ , قَالَ:" فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا".
مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک قافلے میں تھا کہ آپ بکری کے ایک پڑے ہوئے مردہ بچے کے پاس آئے، اور فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ یہ اپنے مالک کے نزدیک حقیر و بے وقعت ہے“؟ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اس کی بے وقعتی ہی کی وجہ سے اس کو یہاں ڈالا گیا ہے، یا اسی طرح کی کوئی بات کہی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل و حقیر ہے جتنی یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک حقیر و بے وقعت ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزہد 13 (2321)، (تحفة الأشراف: 11258)، وقد أخرجہ: (حم 4/229، 230) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (2321)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 524
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4111 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4111
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ کے ہاں اصل اہمیت انسان کے اعمال کی ہے۔
دنیا کے اسباب اگر نیکی کے کام میں استعمال کیے جائیں تو وہ انسان کے لیے مفید ہیں ورنہ مال ودولت یا جاہ و حشمت کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں۔
(2)
دنیا کے اسباب کو جائز ذرائع سے حاصل کرنا چاہیےاور انھیں ایسے کام میں خرچ کرنا چاہیے جس سے اللہ کی رضا حاصل ہو۔
(3)
اللہ کی رضا اور انعامات کا اصل مقام جنت ہے۔
اس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی دولت کی کوئی قیمت نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4111