سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے میں کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے، اور لوگ بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا سے بے رغبتی رکھو، اللہ تم کو محبوب رکھے گا، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے نیاز ہو جاؤ، تو لوگ تم سے محبت کریں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4687، ومصباح الزجاجة: 1452) (صحیح)» (سند میں خالد بن عمرو کو ابن معین نے جھوٹ سے متہم کیا ہے، اور صالح جزرہ وغیرہ نے اس کی طرف وضع حدیث کی نسبت کی ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر اصل حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 944)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف خالد بن عمرو الأموي: رماه ابن معين بالكذب ونسبه صالح جزرة وغيره إلي الوضع (تقريب: 1660) وله متابعات مردودة وشواهد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 524
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4102
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیاہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے۔ شیخ البانی ؒ نے اس حدیث پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کے شواہد اور متابعات کا تذ کرہ کیا ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کی باوجود قابل عمل ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے (الصحيحة 2/ 624، 628، رقم: 944) زہد کا مطلب یہ نہیں کہ انسان دنیا والوں سے الگ تھلگ ہوجائے۔ یہ رہبانیت ہے جو اسلامی طریقہ نہیں۔ زہد کا مطلب یہ ہے کہ حلال آمدنی پر کفایت کی جائے خواہ کم ہو۔ اور حرام کمائی کی راہیں تلاش نہ کی جائیں۔
(3) یہ امید رکھنا کہ دوسرے مجھے کچھ دیں، حرص کا اظہار ہے۔ دوسروں کے مال سے بے نیازی، زہد وقناعت میں شامل ہے۔
(4) انسانوں سے طمع رکھنے سے انسان ذلیل ہوتا ہےاور قناعت سے ان کی نظروں میں محبوب و معزز بن جاتا ہے۔
(5) اللہ تعالی سے امید رکھنا اور حلال روزی تلاش کرنا زہد کے منافی نہیں۔
(6) اللہ تعالی سے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی ضرورت بھی مانگتے رہنا چاہیے کیونکہ اسباب اس کے اختیار میں ہیں لیکن آخرت کی طلب زیادہ ہونی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4102
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1271
اللہ تعالیٰ کی اور لوگوں کی محبت حاصل کرنے کا طریقہ «وعن سهل بن سعد رضى الله عنه قال: جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وآله وسلم فقال: يا رسول الله دلني على عمل إذا عملته احبني الله واحبني الناس؟ فقال: ازهد فى الدنيا يحبك الله وازهد فيما عند الناس يحبك الناس رواه ابن ماجه وغيره وسنده حسن.» ”سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتائیں کہ جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کریں اور لوگ مجھ سے محبت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا سے بےرغبتی اختیار کر اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرے گا اور اس چیز سے بےرغبت ہو جا جو لوگوں کے پاس ہے تو لوگ تجھ سے محبت کریں گے۔“ اسے ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1271]
تخریج: «حسن» ابن ماجہ کی سند اس طرح ہے: «عن خالد بن عمرو القرشي عن سفيان الثوري عن ابي حازم عن سهل بن سعدد الخ» خالد بن عمرو وضاع ہے اس لئے بعض محدثین نے اس حدیث کو باطل کہا ہے۔ مگر اس کی متابعت موجود ہے اور یہ حدیث اس کے علاوہ اور سندوں سے بھی آئی ہے جن میں شدید ضعف نہیں علاوہ ازیں جید سند کے ساتھ ایک مرسل روایت بھی اس کی شاہد ہے اس لئے شیخ البانی نے صحیح ابن ماجہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے اور سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (944) میں بھی اس کی متابعات اور شواہد تفصیل سے ذکر کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
فوائد: ➊ دنیا سے بےرغبت ہو جا اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرے گا۔ دنیا کیا ہے اس کا آسان مختصر جواب یہ ہے کہ وہ چیزیں جن کا فائدہ صرف دنیا میں ہے آخرت میں نہیں کیونکہ جن چیزوں کا فائدہ آخرت میں ہو یا آخرت میں بھی ہو وہ آخرت قرار پائیں گی دنیا نہیں اس لئے اللہ کی محبت حاصل کرنے کا نسخہ یہ ہے کہ آدمی ان تمام چیزوں سے بےرغبتی اختیار کرے جو آخرت میں کسی کام نہیں آئیں گی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا: «الزهد ترك ما لا ينفع فى الاخرة» زہد ان چیزوں کو چھوڑ دینے کا نام ہے جو آخرت میں کوئی فائدہ نہ دیں۔ ➋ اس چیز سے بے رغبت ہو جا جو لوگوں کے پاس ہے لوگ تجھ سے محبت کریں گے۔ کیونکہ جو شخص لوگوں سے مانگے یا ان کے پاس موجود چیزوں کی حرص رکھے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور اسے ناپسند کرتے ہیں کیوں کہ فطرتاً انسان کے دل میں مال کی محبت رکھ دی گئی ہے: «زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ»[3-آل عمران:14] ”لوگوں کے لیے خواہشات کی محبت مزین کر دی گئی ہے عورتوں سے، بیٹوں سے، سونے چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے، نشان والے گھوڑوں سے اور چوپاؤں اور کھیتی سے۔“ اب جو شخص لوگوں سے ان کی محبوب چیز مانگے وہ اس سے محبت کس طرح کر سکتے ہیں، ہاں ان کے مال و متاع سے بےنیاز ہو جائے تو لوگ عزت اور محبت کرتے ہیں۔ ➌ ایک اعرابی نے لوگوں سے پوچھا اہل بصرہ کا سردار کون ہے لوگوں نے بتایا حسن بصری! اس نے پوچھا وہ ان کا سردار کیسے بن گیا؟ بتایا گیا کہ لوگ اس کے علم کے محتاج ہیں اور وہ ان کی دنیا سے مستغنی ہے۔ [توضيح الاحكام] ➍ لوگوں کی محبت کی خواہش اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کوئی بری چیز نہیں بلکہ یہ مستحب، بلکہ فرض ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «والذي نفسي بيده لا تومنوا حتي تحابوا»”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم مومن نہیں بنو گے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہیں کرو گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا طریقہ بتایا کہ آپس میں سلام کثرت سے کیا کرو اسی طرح آپ نے باہمی محبت حاصل کرنے کے لیے ہدیہ دینے کی تلقین فرمائی۔ [صحيح مسلم-كتاب الايمان-54]
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 114
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1271
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان` سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل ارشاد فرمائیے کہ جب میں وہ عمل کروں تو اللہ مجھے اپنا محبوب بنا لے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا ” دنیا سے بے نیاز و بے رغبت ہو جا اللہ تجھے محبوب رکھے گا اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بھی بے نیاز ہو جا لوگ بھی تجھے محبوب رکھیں گے اور پسند کریں گے۔“ اسے ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1271»
تخریج: «أخرجه ابن ماجه، الزهد، باب الزهد في الدنيا، حديث:4102.* خالد وضاع، وله متابعات مردودة وشواهد ضعيفة.»
تشریح: 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کے شواہد اور متابعات کا تذکرہ کیا ہے جس سے راجح اور اقرب الی الصواب بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت دیگر شواہد اور متابعات کی بناپر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحیحۃ للألباني: ۲ /۶۲۴۔ ۶۲۸‘ رقم:۹۴۴) 2. اس حدیث میں محبوب کائنات بننے کا گر اور طریقہ بتلایا گیا ہے کہ انسان دنیا اور اہل دنیا سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ ہی کا ہو جائے اور دنیا کی طمع و لالچ میں نہ پڑے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1271