(مرفوع) حدثنا الحسن بن ابي الربيع , حدثنا عبد الرزاق , حدثنا جعفر بن سليمان , عن ثابت , عن انس , قال: اشتكى سلمان , فعاده سعد فرآه يبكي , فقال له سعد: ما يبكيك يا اخي , اليس قد صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ اليس اليس , قال سلمان : ما ابكي واحدة من اثنتين , ما ابكي ضنا للدنيا , ولا كراهية للآخرة , ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي عهدا فما اراني إلا قد تعديت , قال: وما عهد إليك؟ قال:" عهد إلي انه يكفي احدكم مثل زاد الراكب , ولا اراني إلا قد تعديت , واما انت يا سعد , فاتق الله عند حكمك إذا حكمت , وعند قسمك إذا قسمت , وعند همك إذا هممت" , قال ثابت: فبلغني انه ما ترك إلا بضعة وعشرين درهما , من نفقة كانت عنده. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ ثَابِتٍ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: اشْتَكَى سَلْمَانُ , فَعَادَهُ سَعْدٌ فَرَآهُ يَبْكِي , فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا يُبْكِيكَ يَا أَخِي , أَلَيْسَ قَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَلَيْسَ أَلَيْسَ , قَالَ سَلْمَانُ : مَا أَبْكِي وَاحِدَةً مِنَ اثْنَتَيْنِ , مَا أَبْكِي ضِنًّا لِلدُّنْيَا , وَلَا كَرَاهِيَةً لِلْآخِرَةِ , وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا فَمَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ تَعَدَّيْتُ , قَالَ: وَمَا عَهِدَ إِلَيْكَ؟ قَالَ:" عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ يَكْفِي أَحَدَكُمْ مِثْلُ زَادِ الرَّاكِبِ , وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ تَعَدَّيْتُ , وَأَمَّا أَنْتَ يَا سَعْدُ , فَاتَّقِ اللَّهَ عِنْدَ حُكْمِكَ إِذَا حَكَمْتَ , وَعِنْدَ قَسْمِكَ إِذَا قَسَمْتَ , وَعِنْدَ هَمِّكَ إِذَا هَمَمْتَ" , قَالَ ثَابِتٌ: فَبَلَغَنِي أَنَّهُ مَا تَرَكَ إِلَّا بِضْعَةً وَعِشْرِينَ دِرْهَمًا , مِنْ نَفَقَةٍ كَانَتْ عِنْدَهُ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لیے آئے اور ان کو روتا ہوا پایا، سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میرے بھائی آپ کس لیے رو رہے ہیں؟ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض نہیں اٹھایا؟ کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان دونوں میں سے کسی بھی وجہ سے نہیں رو رہا، نہ تو دنیا کی حرص کی وجہ سے اور نہ اس وجہ سے کہ آخرت کو ناپسند کرتا ہوں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک نصیحت کی تھی، جہاں تک میرا خیال ہے میں نے اس سلسلے میں زیادتی کی ہے، سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کیا نصیحت تھی؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”تم میں سے کسی کے لیے بھی دنیا میں اتنا ہی کافی ہے جتنا کہ مسافر کا توشہ، لیکن میں نے اس سلسلے میں زیادتی کی ہے، اے سعد! جب آپ فیصلہ کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، جب کچھ تقسیم کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، اور جب کسی کام کا قصد کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر کرنا۔ ثابت (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ مجھے پتہ چلا کہ سلمان رضی اللہ عنہ نے بیس سے چند زائد درہم کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا، وہ بھی اپنے خرچ میں سے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4104
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم ﷺ نے کئی بشارتیں دی تھیں۔ اس کے باوجود وہ معمولی سی کوتاہی کو بھی بہت بڑی غلطی تصور کرتے تھے۔
(2) حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس دنیاوی ضروریات کے پیش نظر تھوڑے بہت سامان کا جمع ہونا یہ ان کی کوتاہی نہیں تھی لیکن کمال کا تقویٰ کی وجہ سے وہ خوف زدہ رہتے تھے۔
(3) کسی جھگڑے کا فیصلہ کرتے وقت اور کسی مشترک چیز کی تقسیم کے وقت تقویٰ کی اہمیت زیادہ ہوجاتی ہے کیونکہ لوگ اعتماد کرکے یہ ذمہ داری دیتے ہیں۔ ان کے اعتماد سے ناجائز فائدہ اٹھا کر کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنا بڑی غلطی ہے۔ (همَّ) سے مراد سوچ، ارادہ، پروگرام وغیرہ، ہے۔ مومن کے مستقبل کے پروگرام تقویٰ پر مبنی ہوتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4104