كتاب الطب کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل 33. بَابُ: مَنِ اسْتَرْقَى مِنَ الْعَيْنِ باب: نظر بد لگنے پر دم کرنے کا بیان۔
عبید بن رفاعہ زرقی کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! جعفر کے بیٹوں کو نظر بد لگ جاتی ہے، کیا میں ان کے لیے دم کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اگر کوئی چیز لکھی ہوئی تقدیر پر سبقت لے جاتی تو نظر بد لے جاتی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 17 (2059)، (تحفة الأشراف: 15758)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/438) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مقصد یہ ہے کہ نظر بد کا اثر نقصان دہ اور تکلیف پہنچانے والا ہوتا ہے، حتی کہ تقدیر کے خلاف اگر کوئی چیز پیش آ سکتی ہے اور وہ نقصان پہنچا سکتی ہے تو وہ نظر بد ہے، جس سے بچنے کے لئے نبی اکرم ﷺ معوذتین «قُل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» پڑھتے جو ہر بلا اور ہر بدنظری سے بچنے کے لئے مجرب ہیں، لبید بن عاصم یہودی نے جب رسول اکرم ﷺ پر جادو کر دیا تھا تو آپ ﷺ کے کہنے پر وہ گرہ دار بال بھی ایک اندھے کنویں سے منگوایا گیا، ایک ایک آیت ان سورتوں کی آپ ﷺ پڑھتے جاتے تھے، اور ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی، یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں، اور لبید یہودی کا سحر باطل ہوا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کی نظر بد سے، پھر آدمیوں کی نظر بد سے پناہ مانگتے تھے، پھر جب معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) نازل ہوئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پڑھنا شروع کیا، اور باقی تمام چیزیں چھوڑ دیں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 16 (2058)، سنن النسائی/الإستعاذة 36 (5496)، (تحفة الأشراف: 4327) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نظر بد لگ جانے پر دم کرنے کا حکم دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 35 (5738)، صحیح مسلم/السلام 21 (2195)، (تحفة الأشراف: 16199)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/63، 138) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام شوکانی الدرر البہیۃ میں کہتے ہیں کہ جھاڑ پھونک میں کوئی حرج نہیں، نواب صدیق حسن الرروضۃ الندیۃ میں فرماتے ہیں کہ دم کرنے (جھاڑ پھونک) میں کچھ حرج نہیں اور شرعی قواعد اس سے مانع نہیں ہیں، بشرطیکہ اس میں شرک نہ ہوں، اور بالخصوص جب وہ قرآن یا حدیث سے ہو یا ان دونوں کے مشابہ اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور گڑگڑانے والی دعائیں تو یہ جائز ہے، اور جن احادیث میں دم (جھاڑ پھونک) تعویذ اور تِوَلہ (یعنی وہ منتر جو عورت کو اس کے شوہر کے نزدیک پسندیدہ بنا دے، اور جو جادو وغیرہ کے ذریعے سے کیا جاتا ہے) سے ممانعت ہے، وہ شرک کے مضامین پر محمول ہیں یا اسباب پر زیادہ بھروسہ کرنا، اس طرح سے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جائے، اور شاہ ولی اللہ دہلوی المسوی شرح الموطأ میں فرماتے ہیں کہ جھاڑ پھونک کے بارے میں احادیث کا اختلاف ہے، ان میں جمع و تطبیق کی صورت یہ ہو گی کہ ان کو مختلف احوال پر محمول کیا جائے گا، تو ممنوع جھاڑ پھونک وہ ہے جس میں شرک ہے، یا جس میں بدمعاش شیطانوں کا ذکر ہوتا ہے، یا جو غیرعربی زبان میں ہوتے ہیں اور جن کا معنی معلوم نہیں ہوتا، اور شاید کہ اس میں جادو یا کفر موجود ہو، اور جو دم قرآن یا اللہ کے ذکر پر مشتمل ہو، وہ مستحب ہے۔ (الروضۃ الندیۃ ۳/۱۵۸) قال الشيخ الألباني: صحيح
|