(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبد الله بن نمير , عن هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت: سحر النبي صلى الله عليه وسلم يهودي من يهود بني زريق يقال له لبيد بن الاعصم , حتى كان النبي صلى الله عليه وسلم يخيل إليه انه يفعل الشيء ولا يفعله , قالت: حتى إذا كان ذات يوم او كان ذات ليلة دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم دعا , ثم دعا , ثم قال:" يا عائشة، اشعرت ان الله قد افتاني فيما استفتيته فيه , جاءني رجلان، فجلس احدهما عند راسي , والآخر عند رجلي , فقال الذي عند راسي للذي عند رجلي , او الذي عند رجلي للذي عند راسي: ما وجع الرجل؟ قال: مطبوب , قال: من طبه؟ قال: لبيد بن الاعصم , قال: في اي شيء , قال: في مشط , ومشاطة , وجف طلعة ذكر , قال: واين هو؟ قال: في بئر ذي اروان" , قالت: فاتاها النبي صلى الله عليه وسلم في اناس من اصحابه , ثم جاء , فقال:" والله يا عائشة لكان ماءها نقاعة الحناء , ولكان نخلها رءوس الشياطين" , قالت: قلت: يا رسول الله , افلا احرقته , قال:" لا , اما انا فقد عافاني الله , وكرهت ان اثير على الناس منه شرا" , فامر بها فدفنت. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: سَحَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودِيٌّ مِنْ يَهُودِ بَنِي زُرَيْقٍ يُقَالُ لَهُ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ , حَتَّى كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَلَا يَفْعَلُهُ , قَالَتْ: حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ دَعَا , ثُمَّ دَعَا , ثُمَّ قَالَ:" يَا عَائِشَةُ، أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ , جَاءَنِي رَجُلَانِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي , وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلِي , فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رَأْسِي لِلَّذِي عِنْدَ رِجْلِي , أَوِ الَّذِي عِنْدَ رِجْلِي لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِي: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ , قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ , قَالَ: فِي أَيِّ شَيْءٍ , قَالَ: فِي مُشْطٍ , وَمُشَاطَةٍ , وَجُفِّ طَلْعَةِ ذَكَرٍ , قَالَ: وَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذِي أَرْوَانَ" , قَالَتْ: فَأَتَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ , ثُمَّ جَاءَ , فَقَالَ:" وَاللَّهِ يَا عَائِشَةُ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ , وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَفَلَا أَحْرَقْتَهُ , قَالَ:" لَا , أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِي اللَّهُ , وَكَرِهْتُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا" , فَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی زریق کے یہودیوں میں سے لبید بن اعصم نامی ایک یہودی نے جادو کر دیا، تو آپ کو ایسا لگتا کہ آپ کچھ کر رہے ہیں حالانکہ آپ کچھ بھی نہیں کر رہے ہوتے تھے، یہی صورت حال تھی کہ ایک دن یا ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی اور پھر دعا فرمائی، پھر کہا: ”عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی جو میں نے اس سے پوچھی تھی، میرے پاس دو شخص آئے، ایک میرے سرہانے اور دوسرا پائتانے بیٹھ گیا، سرہانے والے نے پائتانے والے سے کہا، یا پائتانے والے نے سرہانے والے سے کہا: اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے، اس نے سوال کیا: کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم نے، اس نے پوچھا: کس چیز میں جادو کیا ہے؟ جواب دیا: کنگھی میں اور ان بالوں میں جو کنگھی کرتے وقت گرتے ہیں، اور نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں، پہلے نے پوچھا: یہ چیزیں کہاں ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا: ذی اروان کے کنوئیں میں“۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ اس کنوئیں پر تشریف لائے، پھر واپس آئے تو فرمایا: ”اے عائشہ! اللہ تعالیٰ کی قسم! اس کا پانی مہندی کے پانی کی طرح (رنگین) تھا، اور وہاں کے کھجور کے درخت گویا شیطانوں کے سر تھے“۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اسے جلایا نہیں؟ فرمایا: ”نہیں، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے تندرست کر دیا ہے، اب میں نے ناپسند کیا کہ میں لوگوں پر اس کے شر کو پھیلاؤں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ سب چیزیں دفن کر دی گئیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 17 (2189)، (تحفة الأشراف: 16985)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجزیة 14 (3175)، الطب 50 (5766)، مسند احمد (6/57) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! آپ کو ہر سال اس زہریلی بکری کی وجہ سے جو آپ نے کھائی تھی، تکلیف ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس کی وجہ سے کچھ بھی ہوا وہ میرے مقدر میں اسی وقت لکھ دیا گیا تھا جب آدم مٹی کے پتلے تھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8443، 8532، ومصباح الزجاجة: 1237) (ضعیف)» (سند میں ابوبکر عنسی مجہول الحال راوی ہیں)