حدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن همام بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر احاديث منها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كانت بنو إسرائيل يغتسلون عراة، ينظر بعضهم إلى سواة بعض، وكان موسى عليه السلام، يغتسل وحده، فقالوا: والله ما يمنع موسى ان يغتسل معنا، إلا انه آدر، قال: فذهب مرة يغتسل، فوضع ثوبه على حجر، ففر الحجر بثوبه، قال: فجمح موسى باثره، يقول: ثوبي حجر، ثوبي حجر، حتى نظرت بنو إسرائيل إلى سواة موسى، فقالوا: والله ما بموسى من باس، فقام الحجر بعد، حتى نظر إليه، قال: فاخذ ثوبه، فطفق بالحجر ضربا، قال ابو هريرة: والله إنه بالحجر ندب ستة، او سبعة، ضرب موسى عليه السلام بالحجر ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً، يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى سَوْأَةِ بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا، إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ، قَالَ: فَذَهَبَ مَرَّةً يَغْتَسِلُ، فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ، فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِهِ، قَالَ: فَجَمَحَ مُوسَى بِأَثَرِهِ، يَقُولُ: ثَوْبِي حَجَرُ، ثَوْبِي حَجَرُ، حَتَّى نَظَرَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِلَى سَوْأَةِ مُوسَى، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا بِمُوسَى مِنْ بَأْسٍ، فَقَامَ الْحَجَرُ بَعْدُ، حَتَّى نُظِرَ إِلَيْهِ، قَالَ: فَأَخَذَ ثَوْبَهُ، فَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاللَّهِ إِنَّهُ بِالْحَجَرِ نَدَبٌ سِتَّةٌ، أَوْ سَبْعَةٌ، ضَرْبُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام بِالْحَجَرِ ".
ہمام بن منبہ نے کہا: یہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں۔ان میں سے ایک یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بنواسرائیل ننگے غسل کرتے تھے اور ایک دوسرے کی شرم گا ہ دیکھتے تھے جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرتے تھے، وہ لو گ (آپس میں) کہنے لگے: واللہ!حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہمارے ساتھ نہانے سے اس کے سوا اور کوئی بات نہیں روکتی کہ انھیں خصیتیں کی سوجن ہے۔ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے کے لیے گئے اور اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے، وہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھا گ نکلا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ کہتے ہو ئے اس کے پیچھے لپکے: میرے کپڑے، پتھر!میرے کپڑے، پتھر!یہاں تک کہ بنی اسرا ئیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جا ئے ستر دیکھ لی۔وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام کو تو کوئی تکلیف نہیں۔اس کے بعد پتھر ٹھہر گیا اس وقت تک ان کو دیکھ لیا گیا تھا۔فرمایا: انھوں نے اپنے کپڑے لے لیے اور پتھر کو ضربیں لگا نی شروع کر دیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ!پتھرپر چھ یا سات زخموں کے جیسے نشان پڑگئے، یہ پتھر کو موسی علیہ السلام کی مار تھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ہمام بن منبہ کے سنائی ہوئی احادیث میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسرئیلی ننگے نہاتے تھے اور ایک دوسرے کی شرم گاہ دیکھتے رہتے او رحضرت موسیٰ علیہ السلام اکیلے الگ تھلگ غسل کرتے تھے تو وہ کنے لگے، اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام کو ہمارے ساتھ نہانے سے صرف یہ چیز روکتی ہے کہ ان کے خصے پھولے ہوئے ہیں، ایک دن وہ نہانے لگے، تو اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیئے، پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا، موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے دوڑے، کہتے جاتے تھے، میرے کپڑے دے، اے پتھر، میرے کپڑے دے، اے پتھر حتی کہ اسرائیلیوں نے موسیٰ علیہ السلام کی شرم گاہ کو دیکھ لیا تو وہ کہنے لگے، اللہ کی قسم!موسیٰ علیہ السلام کو تو کوئی بیماری نہیں ہے، اس کے بعد پتھر ٹھہر گیا، حتی کہ انہیں اچھی طرح دیکھ لیا گیا، موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے لے لیے اور پتھر کو مارنے لگے۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ کی قسم! حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پتھر کے مارنے کی بنا پر، پتھر پر چھ یا سات نشان پڑ گئے۔
وحدثنا يحيي بن حبيب الحارثي ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا خالد الحذاء ، عن عبد الله بن شقيق ، قال: انبانا ابو هريرة ، قال: " كان موسى عليه السلام رجلا حييا، قال: فكان لا يرى متجردا، قال: فقال بنو إسرائيل: إنه آدر، قال: فاغتسل عند مويه، فوضع ثوبه على حجر، فانطلق الحجر يسعى، واتبعه بعصاه يضربه، ثوبي حجر، ثوبي حجر، حتى وقف على ملإ من بني إسرائيل، ونزلت: يايها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبراه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها سورة الاحزاب آية 69 ".وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " كَانَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام رَجُلًا حَيِيًّا، قَالَ: فَكَانَ لَا يُرَى مُتَجَرِّدًا، قَالَ: فَقَالَ بَنُو إِسْرَائِيلَ: إِنَّهُ آدَرُ، قَالَ: فَاغْتَسَلَ عِنْدَ مُوَيْهٍ، فَوَضَعَ ثَوْبهُ عَلَى حَجَرٍ، فَانْطَلَقَ الْحَجَرُ يَسْعَى، وَاتَّبَعَهُ بِعَصَاهُ يَضْرِبُهُ، ثَوْبِي حَجَرُ، ثَوْبِي حَجَرُ، حَتَّى وَقَفَ عَلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَنَزَلَت: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا سورة الأحزاب آية 69 ".
عبد اللہ بن شفیق نے کہا: ہمیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہا: حضرت موسی علیہ السلام باحیا مرد تھے، کہا: انھیں برہنہ نہیں دیکھا جا سکتا تھا کہا تو بنی اسرا ئیل نے کہا: انھیں خصیتین کی سوجن ہے۔کہا: (ایک دن) انھوں نے تھوڑے سے پانی (کے ایک تالاب) کے پاس غسل کیا اور اپنے کپڑے پتھر پر رکھ دیے تو وہ پتھر بھاگ نکلا آپ علیہ السلام اپنا عصالیے اس کے پیچھے ہو لیے اسے مارتے تھے (اور کہتے تھے۔) میرے کپڑے پتھر!میرے کپڑے پتھر!یہاں تک کہ وہ بنی اسرائیل کے ایک مجمع کے سامنے رک گیا۔ اور (اس کےحوالے سے آیت) اتری: "ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا ؤ جنھوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ایذادی اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی کہی ہو ئی بات سے براءت عطا کی اور وہ اللہ کے نزدیک انتہائی وجیہ (خوبصورت اور وجاہت والے) تھے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت با حیاء مرد تھے اور کبھی ننگے دکھائی نہیں دیتے تھے تو بنو اسرائیل کہنے لگے ان کے خصیتین سوجھے ہوئے ہیں، انہوں نے ایک تھوڑے پانی کے ساتھ غسل کیا اور اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیئے، پتھر بھاگ کھڑا ہوا، موسیٰ علیہ السلام اپنا ڈنڈا لے کر مارنے کے لیے پیچھے بھاگے، میرے کپڑے، اے پتھر، میرے کپڑے اے پتھر، حتی کہ وہ بنو اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس جا کر رک گیا۔اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے کےلیے یہ آیت اتری، ”اے ایماندارو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا، جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کواذیت دی، سو اللہ نے ان کوان کی باتوں سے بری کر دیا اور وہ اللہ کے ہاں بہت عزت والے تھے“
وحدثني محمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، قال: اخبرنا، وقال ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ابن طاوس ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: " ارسل ملك الموت إلى موسى عليه السلام، فلما جاءه صكه، ففقا عينه، فرجع إلى ربه، فقال: ارسلتني إلى عبد لا يريد الموت، قال، فرد الله إليه عينه، وقال: ارجع إليه، فقل له: يضع يده على متن ثور، فله بما غطت يده بكل شعرة سنة، قال: اي رب ثم مه؟ قال: ثم الموت، قال: فالآن، فسال الله ان يدنيه من الارض المقدسة رمية بحجر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فلو كنت ثم، لاريتكم قبره إلى جانب الطريق، تحت الكثيب الاحمر ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ، فَفَقَأَ عَيْنَهُ، فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ، قَالَ، فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ عَيْنَهُ، وَقَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِ، فَقُلْ لَهُ: يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ، فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ، قَالَ: أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَهْ؟ قَالَ: ثُمَّ الْمَوْتُ، قَالَ: فَالْآنَ، فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلَوْ كُنْتُ ثَمَّ، لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ، تَحْتَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ ".
محمد بن رافع اور عبد بن حمید نے مجھے حدیث بیان کی۔ عبد نے کہا: عبدلرزاق نے ہمیں خبر دی اور ابن رافع نے کہا: ہمیں حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں معمر نے ابن طاوس سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ملک الموت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا جب وہ (انسانی شکل اور صفات کے ساتھ) ان کے پاس آیا تو انھوں نے اسے تھپڑ رسید کیا اور اس کی آنکھ پھوڑدی وہ اپنے رب کی طرف واپس گیا اور عرض کی: تونے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو موت نہیں چاہتا، تو اللہ تعا لیٰ نے اس کی آنکھ اسے لو ٹا دی اور فرما یا: دوبارہ ان کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ وہ ایک بیل کی کمر پر ہاتھ رکھیں، ان کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ان میں ہر بال کے بدلے میں ایک سال انھیں ملے گا۔ (فرشتے نے پیغام دیا تو موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: میرے رب!پھر کیا ہو گا؟فرمایا پھر مو ت ہو گی۔ توانھوں نے کہا: پھر ابھی (آجائے) تو انھوں نے اللہ تعا لیٰ سے دعا کی کہ وہ انھیں ارض مقدس سے اتنا قریب کردے جتنا ایک پتھر کے پھینکے جا نے کا فا صلہ ہو تا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اگر میں وہاں ہو تا تو میں تمھیں (بیت المقدس کے) راستے کی ایک جانب سرخ ٹیلے کے نیچے ان کی قبر دکھا تا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس موت کا فرشتہ بھیجا گیا تو جب وہ ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے اسے تھپڑ رسید کیا اور اس کی آنکھ پھوڑدی وہ اپنے رب کے پاس آیا اور عرض کی: آپ نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ اسے لوٹا دی اور فرمایا: اس کے پاس دوبارہ جاؤ اور ان سے کہو کہ وہ ایک بیل کی پشت پر ہاتھ رکھو، اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے، ہر بال کے عوض میں ایک سال عمر ملے گی۔ موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے رب! پھر کیا ہو گا؟ فرمایا پھر مرنا ہوگا۔ عرض کیا تو ابھی مار لو اور اللہ سے درخواست کی، مجھے ارض مقدس (بیت المقدس) کے ایک پتھر پھینکے جاتے کے فاصلہ تک قریب کر دے، رسول اللہ نے فرمایا: اگر میں اس جگہ ہوتا تو میں تمہیں ان کی قبر دکھاتا، راستہ کے کنارے پر سرخ ٹیلے کے نیچے۔
حدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن همام بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر احاديث منها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " جاء ملك الموت إلى موسى عليه السلام، فقال له: اجب ربك، قال: فلطم موسى عليه السلام عين ملك الموت، ففقاها، قال: فرجع الملك إلى الله تعالى، فقال: إنك ارسلتني إلى عبد لك، لا يريد الموت، وقد فقا عيني، قال: فرد الله إليه عينه، وقال: ارجع إلى عبدي، فقل الحياة تريد، فإن كنت تريد الحياة، فضع يدك على متن ثور، فما توارت يدك من شعرة، فإنك تعيش بها سنة، قال: ثم مه؟ قال: ثم تموت، قال: فالآن من قريب، رب امتني من الارض المقدسة، رمية بحجر، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم والله: " لو اني عنده، لاريتكم قبره إلى جانب الطريق، عند الكثيب الاحمر "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " جَاءَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ لَهُ: أَجِبْ رَبَّكَ، قَالَ: فَلَطَمَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عَيْنَ مَلَكِ الْمَوْتِ، فَفَقَأَهَا، قَالَ: فَرَجَعَ الْمَلَكُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى، فَقَالَ: إِنَّكَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَكَ، لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ، وَقَدْ فَقَأَ عَيْنِي، قَالَ: فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ عَيْنَهُ، وَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى عَبْدِي، فَقُلِ الْحَيَاةَ تُرِيدُ، فَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْحَيَاةَ، فَضَعْ يَدَكَ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ، فَمَا تَوَارَتْ يَدُكَ مِنْ شَعْرَةٍ، فَإِنَّكَ تَعِيشُ بِهَا سَنَةً، قَالَ: ثُمَّ مَهْ؟ قَالَ: ثُمَّ تَمُوتُ، قَالَ: فَالْآنَ مِنْ قَرِيبٍ، رَبِّ أَمِتْنِي مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ، رَمْيَةً بِحَجَرٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ: " لَوْ أَنِّي عِنْدَهُ، لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ، عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ "،
۔ محمد بن رافع کہا: ہمیں عبدلرزاق نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں معمر نے ہمام بن منبہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: یہ احادیث ہیں جوحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں۔ ان میں سے (ایک حدیث یہ) ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ملک الموت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور ان سے کہا: اپنے رب کے پاس چلیں؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی آنکھ پر تھپڑ مار ا اور اس کی آنکھ نکا ل دی فرمایا: " ملک الموت اللہ تعا لیٰ کے پاس واپس گیا اور کہا: تونے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا تھا جو موت نہیں چاہتا، اور اس نے میری آنکھ پھوڑ دی ہے چنانچہ اللہ تعا لیٰ نے اس کی آنکھ اسے لو ٹا دی اور فرمایا: میرے بندے کے پاس واپس جاؤ اور کہو: آپ زند گی چاہتے ہیں؟اگر زندگی چا ہتے ہیں تو اپنا ہاتھ ایک بیل کی پشت پر رکھیں، جتنے بال آپ کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے اتنے سال آپ زندہ رہیں گے۔ (یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: پھر کیا ہو گا؟کہا: پھر آپ کو موت آجائے گی کہا: تو پھر ابھی جلدی ہی (موت آجا ئے اور دعا کی) اے میرے پروردگار!مجھے ارض مقدس سے ایک پتھر کے پھینکنے کے فا صلےپرموت دے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " االلہ کی قسم! گر میں اس جگہ کے پاس ہو تا تو میں تم کو راستے کی ایک جانب سرخ ٹیلے کے پاس ان کی قبر دکھا تا۔
ہمام بن منبہ کی ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کردہ احادیث میں سے ایک یہ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ملک الموت حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا اور ان سے کہا: اپنے رب کے پاس چلیں؟ تو حضرت موسیٰ ؑ نے اس کی آنکھ پر تھپڑ مار ا اور اس کی آنکھ نکا ل دی فر یا:" ملک الموت اللہ تعا لیٰ کے پاس واپس گیا اور کہا: تونے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا تھا جو موت نہیں چاہتا،اور اس نے میری آنکھ پھوڑ دی ہے چنانچہ اللہ تعا لیٰ نے اس کی آنکھ اسے لو ٹا دی اور فر یا: میرے بندے کے پاس واپس جاؤ اور کہو: آپ زند گی چاہتے ہیں؟اگر زندگی چا ہتے ہیں تو اپنا ہاتھ ایک بیل کی پشت پر رکھیں، جتنے بال آپ کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے اتنے سال آپ زندہ رہیں گے۔(یہ سن کر حضرت موسیٰ ؑ نے) کہا: پھر کیا ہو گا؟کہا: پھر آپ کو موت آجائے گی کہا: تو پھر ابھی جلدی ہی (موت آجا ئے اور دعا کی) اے میرے پروردگار!مجھے ارض مقدس سے ایک پتھر کے پھینکنے کے فا صلےپرموت دے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:" االلہ کی قسم! گر میں اس جگہ کے پاس ہو تا تو میں تم کو راستے کی ایک جانب سرخ ٹیلے کے پاس ان کی قبر دکھاتا۔
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا حجين بن المثنى ، حدثنا عبد العزيز بن عبد الله بن ابي سلمة ، عن عبد الله بن الفضل الهاشمي ، عن عبد الرحمن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال: " بينما يهودي يعرض سلعة له، اعطي بها شيئا كرهه، او لم يرضه، شك عبد العزيز، قال: لا، والذي اصطفى موسى عليه السلام على البشر، قال: فسمعه رجل من الانصار، فلطم وجهه، قال: تقول: والذي اصطفى موسى عليه السلام على البشر، ورسول الله صلى الله عليه وسلم، بين اظهرنا، قال: فذهب اليهودي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا ابا القاسم، إن لي ذمة، وعهدا، وقال: فلان لطم وجهي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لم لطمت وجهه، قال: قال: يا رسول الله، والذي اصطفى موسى عليه السلام على البشر، وانت بين اظهرنا، قال: فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى عرف الغضب في وجهه، ثم قال: لا تفضلوا بين انبياء الله، فإنه ينفخ في الصور، فيصعق من في السماوات، ومن في الارض، إلا من شاء الله قال، ثم ينفخ فيه اخرى، فاكون اول من بعث، او في اول من بعث، فإذا موسى عليه السلام، آخذ بالعرش، فلا ادري، احوسب بصعقته يوم الطور، او بعث قبلي، ولا اقول، إن احدا افضل من يونس بن متى عليه السلام ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ الْهَاشِمِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " بَيْنَمَا يَهُودِيٌّ يَعْرِضُ سِلْعَةً لَهُ، أُعْطِيَ بِهَا شَيْئًا كَرِهَهُ، أَوْ لَمْ يَرْضَهُ، شَكَّ عَبْدُ الْعَزِيزِ، قَالَ: لَا، وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عَلَى الْبَشَرِ، قَالَ: فَسَمِعَهُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَلَطَمَ وَجْهَهُ، قَال: تَقُولُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عَلَى الْبَشَرِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَيْنَ أَظْهُرِنَا، قَالَ: فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، إِنَّ لِي ذِمَّةً، وَعَهْدًا، وَقَالَ: فُلَانٌ لَطَمَ وَجْهِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ، قَالَ: قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عَلَى الْبَشَرِ، وَأَنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، فَيَصْعَقُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ، وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ قَالَ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ بُعِثَ، أَوْ فِي أَوَّلِ مَنْ بُعِثَ، فَإِذَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، آخِذٌ بِالْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي، أَحُوسِبَ بِصَعْقَتِهِ يَوْمَ الطُّورِ، أَوْ بُعِثَ قَبْلِي، وَلَا أَقُولُ، إِنَّ أَحَدًا أَفْضَلُ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى عَلَيْهِ السَّلَام ".
حجین بن مثنیٰ نے کہا: ہمیں عبد العز یز بن عبد اللہ بن ابی سلمہ نے عبد اللہ بن فضل ہاشمی سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبد الرحمٰن اعرج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک بار ایک یہودی اپنا سامان بیچ رہا تھا اس کو اس کے کچھ معاوضے کی پیش کش کی گئی جو اسے بری لگی یا جس پر وہ راضی نہ ہوا۔شک عبد العزیز کو ہوا۔وہ کہنے لگا نہیں، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی!انصار میں سے ایک شخص نے اس کی بات سن لی تو اس کے چہرے پر تھپڑلگا یا، کہا: تم کہتے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی!جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تشریف لا چکے اور) ہمارے درمیان مو جو د ہیں۔کہا: تو وہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور کہنے لگا: ابو القاسم!میری ذمہ داری لی گئی ہے اور ہم سے (سلامتی کا) وعدہ کیا گیا ہے۔اور کہا: فلا ں شخص نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: " تم نے اس کے منہ پر تھپڑ کیوں مارا؟کہا کہ اس نے کہا تھا۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !۔اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کہا: کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے جبکہ آپ ہمارے درمیان مو جود ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور آپ کے چہرہ مبارک سے غصےکا پتہ چلنے لگا، پھر آپ نے فرمایا: "اللہ کے نبیوں کے مابین (انھیں ایک دوسرے پر) فضیلت نہ دیا کرو اس لیے کہ جب صور پھونکا جا ئے گا تو سوائے ان کے جنھیں اللہ چا ہے گا آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق ہے سب کے ہوش و حواس جا تے رہیں گے، پھر دوبارہ صور پھونکا جا ئے گا، تو سب سے پہلے جسے اٹھا یا جا ئے گا وہ میں ہو ں گا یا (فرمایا) جنھیں سب سے پہلے اٹھا یا جا ئے گا میں ان میں ہو ں گا۔تو (میں دیکھوں گا۔کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کو پکڑ ے ہو ئے ہوں گے، مجھے معلوم نہیں کہ ان کے لیے یوم طور کی بے ہو شی کو شمار کیا جا ئے گا۔ (اور وہ اس کے عوض اس بے ہوشی سےمستثنیٰ ہو ں گے،) یاانھیں مجھ سے پہلے ہی اٹھا یا جا ئے گا، میں (یہ بھی) نہیں کہتا کہ کوئی (نبی) یو نس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک بار ایک یہودی اپنا سامان بیچ رہا تھا اس کو اس کے کچھ معاوضے کی پیش کش کی گئی جو اسے بری لگی یا جس پر وہ راضی نہ ہوا۔شک عبد العزیز کو ہوا۔وہ کہنے لگا نہیں،اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی!انصار میں سے ایک شخص نے اس کی بات سن لی تو اس کے چہرے پر تھپڑلگا یا،کہا: تم کہتے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی!جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تشریف لا چکے اور) ہمارے درمیان مو جو د ہیں۔کہا: تو وہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور کہنے لگا: ابو القاسم!میری ذمہ داری لی گئی ہے اور ہم سے (سلامتی کا) وعدہ کیا گیا ہے۔اور کہا: فلا ں شخص نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: " تم نے اس کے منہ پر تھپڑ کیوں مارا؟کہا کہ اس نے کہا تھا۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !۔اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کہا: کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے جبکہ آپ ہمارے درمیان مو جود ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور آپ کے چہرہ مبارک سے غصےکا پتہ چلنے لگا،پھر آپ نے فر یا:"اللہ کے نبیوں کے مابین (انھیں ایک دوسرے پر)فضیلت نہ دیا کرو اس لیے کہ جب صور پھونکا جا ئے گا تو سوائے ان کے جنھیں اللہ چا ہے گا آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق ہے سب کے ہوش و حواس جا تے رہیں گے،پھر دوبارہ صور پھونکا جا ئے گا،تو سب سے پہلے جسے اٹھا یا جا ئے گا وہ میں ہو ں گا یا (فرمایا) جنھیں سب سے پہلے اٹھا یا جا ئے گا میں ان میں ہو ں گا۔تو (میں دیکھوں گا۔کہ) حضرت موسیٰ ؑ عرش کو پکڑ ے ہو ئے ہوں گے، مجھے معلوم نہیں کہ ان کے لیے یوم طور کی بے ہو شی کو شمار کیا جا ئے گا۔(اور وہ اس کے عوض اس بے ہوشی سےمستثنیٰ ہو ں گے،)یاانھیں مجھ سے پہلے ہی اٹھا یا جا ئے گا،میں یہ نہیں کہتا کہ کو ئی یو نس بن متی ؑ سے افضل ہے۔"
حدثني زهير بن حرب ، وابو بكر بن النضر ، قالا: حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن ابن شهاب ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، وعبد الرحمن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال: " استب رجلان، رجل من اليهود، ورجل من المسلمين، فقال المسلم: والذي اصطفى محمدا صلى الله عليه وسلم على العالمين، وقال اليهودي: والذي اصطفى موسى عليه السلام، على العالمين، قال: فرفع المسلم يده عند ذلك، فلطم وجه اليهودي، فذهب اليهودي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره بما كان من امره، وامر المسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تخيروني على موسى، فإن الناس يصعقون، فاكون اول من يفيق، فإذا موسى باطش بجانب العرش، فلا ادري، اكان فيمن صعق، فافاق قبلي، ام كان ممن استثنى الله؟ ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " اسْتَبَّ رَجُلَانِ، رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ، وَرَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ الْمُسْلِمُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَالَمِينَ، وَقَالَ الْيَهُودِيُّ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، عَلَى الْعَالَمِينَ، قَالَ: فَرَفَعَ الْمُسْلِمُ يَدَهُ عِنْدَ ذَلِكَ، فَلَطَمَ وَجْهَ الْيَهُودِيِّ، فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا كَانَ مِنْ أَمْرِهِ، وَأَمْرِ الْمُسْلِمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي، أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ، فَأَفَاقَ قَبْلِي، أَمْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ؟ ".
یعقوب کے والد ابرا ہیم (بن سعد) نے ابن شہاب سے، انھوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن اور عبدالرحمٰن اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: دوآدمیوں کی تکرار ہو گئی، ایک یہودیوں میں سے تھا اور ایک مسلمانوں میں سے۔مسلمان نے کہا: اس ذات کی قسم جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر فضیلت دی! یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہانوں پر فضیلت دی!تو اس پر مسلمان نے اپنا ہاتھ اٹھا یا اور یہودی کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا اور اس کے اپنے اور مسلمان کے درمیان جو کچھ ہوا تھا وہ سب آپ کو بتا دیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو (جب) تمام انسان ہوش و حواس سے بے گانہ ہو جا ئیں گے، سب سے پہلے میں ہو ش میں آؤں گا تو موسیٰ علیہ السلام عرش کی ایک جانب (اسے) پکڑے کھڑے ہوں گے۔مجھے معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے پہلے بے ہوش ہو ئے تھے، اس لیے مجھ سے پہلے اٹھا ئے گئے یا وہ ان میں سے ہیں جنھیں اللہ نے إِلَّا مَن شَاءَ اللَّہُ ۖسوائے ان کے جنھیں اللہ چاہے گا۔ کے تحت) مستثنیٰ کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک یہودی آدمی اور ایک مسلمان آدمی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تو مسلمان نے کہا،اس ذات کی قسم،جس نےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام جہانوں پر فوقیت بخشی،سب سے چن لیا اور یہودی نے کہا،اس ذات کی قسم،جس نے موسیٰ ؑ کو سب جہانوں سے چن لیا،اس پر مسلمان نے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور یہودی کے چہرے پر تھپڑ رسید کردیا تو یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اور مسلمان کے معاملہ کی خبردی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے موسیٰ ؑ پر ترجیح نہ دو،کیونکہ تمام لوگ بے ہوش ہوں گے تو میں سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا اور اس وقت موسیٰ ؑ عرش کے ایک کنارے کو پکڑے ہوئے ہوں گے،مجھے معلوم نہیں،کیا وہ بھی بے ہوش ہونے والوں میں داخل تھے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا ان میں سے ہیں،جن کو اللہ نے صعقہ سے مستثنیٰ قراردیا ہے۔"
شعیب نے زہری سے روایت کی، کہا: مجھے ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن اور سعید بن مسیب نے خبر دی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: مسلمانوں میں سے ایک شخص اور یہودیوں میں سے ایک شخص کے درمیان تکرار ہو ئی، جس طرح شہاب سے ابرا ہیم بن سعد کی روایت کردہ حدیث ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک مسلمان آدمی اور ایک یہودی آدمی میں تلخ کلامی ہوئی،آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
ابو احمد زبیری نے کہا: ہمیں سفیان نے عمرو بن یحییٰ سے، انھوں نےاپنے والد سے، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جس کے چہرے پر تھپڑ مارا گیا تھا۔ اس کے بعد زہری کی روایت کے ہم معنی حدیث بیان کی، مگر انھوں نے (یوں) کہا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) "مجھے معلوم نہیں وہ (موسیٰ علیہ السلام) ان میں سے تھے جنھیں بے ہوشی تو ہو ئی لیکن افاقہ مجھ سے پہلے ہو گیا۔یا کوہ طور کا صعقہ کافی سمجھا گیا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جس کے چہرے پر تھپڑ مارا گیا تھا۔اس کے بعد زہری کی روایت کے ہم معنی حدیث بیان کی، مگر انھوں نے (یوں)کہا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:)"مجھے معلوم نہیں وہ (موسیٰ ؑ) ان میں سے تھے جنھیں بے ہوشی تو ہو ئی لیکن افاقہ مجھ سے پہلے ہو گیا۔یا کوہ طور کا صعقہ کافی سمجھا گیا۔"
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے سفیان سے حدیث بیان کی، ابن نمیر نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے عمرو بن یحییٰ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انبیاء علیہ السلام کے درمیان کسی کو دوسرے پر بہتر قرار نہ دو۔ "اور ابن نمیر کی حدیث (کی سند) میں ہے: عمرو بن یحییٰ نے کہا: مجھے میرےوالد نے حدیث سنائی۔
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"انبیاء ؑ کے درمیان فضیلت قائم نہ کرو۔"
ہداب بن خالد اور شیبان بن فروخ نے کہا: ہمیں حماد بن سلمہ نے ثابت بنانی اور سلیمان تیمی سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معراج کی شب میں سرخ ٹیلے کے قریب آیا۔اور ہداب کی روایت میں ہے۔میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:'معراج کی شب میں سرخ ٹیلے کے قریب آیا۔اور ہداب کی روایت میں ہے۔میں موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موسیٰ علیہ السلام پر میرا گزر ہوا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔“ اور عیسیٰ کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ ”معراج کی رات میرا گزر ہوا۔“