ابو بکر بن ابی شیبہ اور عمرو ناقد نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے ابن منکدر سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہا: ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے فرما یا ہو۔نہیں،
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی چیز کے مانگنے پر نہیں، نہ کہا۔“
اشجعی اور عبد الرحمٰن بن مہدی دونوں نے سفیان سے انھوں نے محمد بن منکدر سے روایت کی، انھوں نے کہا: سمیں نے حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، بالکل اسی (سابقہ حدیث) کے مانند۔
امام صاحب کے دواساتذہ اپنی اپنی سند سے یہی روایت، بالکل اسی طرح بیان کرتے ہیں۔
وحدثنا عاصم بن النضر التيمي ، حدثنا خالد يعني ابن الحارث ، حدثنا حميد ، عن موسى بن انس ، عن ابيه ، قال: " ما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، على الإسلام شيئا، إلا اعطاه، قال، فجاءه رجل، فاعطاه غنما بين جبلين، فرجع إلى قومه، فقال: يا قوم اسلموا، فإن محمدا يعطي عطاء لا يخشى الفاقة ".وحَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا، إِلَّا أَعْطَاهُ، قَالَ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَةَ ".
موسیٰ بن انس نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام (لا نے) پر جوبھی چیز طلب کی جا تی آپ وہ عطا فر ما دیتے، کہا: ایک شخص آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہاڑوں کے درمیان (چرنے والی) بکریاں اسے دے دیں، وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس گیا اور کہنے لگا: میری قوم!مسلمان ہو جاؤ بلا شبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عطا کرتے ہیں کہ فقر وفاقہ کا اندیشہ تک نہیں رکھتے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاسلام لانے کے وقت جوکچھ مانگ لیا جاتا تھا، آپ عنایت فرما دیتے، آپ کے پاس ایک آدمی آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریاں دے دیں تو وہ اپنی قوم کے پاس جا کر کہنے لگا، اے میری قوم! مسلمان ہو جاؤ، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر عنایت فرماتا ہے کہ اسے فقرو فاقہ کا خدشہ ہی نہیں۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، عن حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن انس : ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم غنما بين جبلين؟ فاعطاه إياه، فاتى قومه، فقال: " اي قوم اسلموا، فوالله إن محمدا ليعطي عطاء ما يخاف الفقر، فقال انس: إن كان الرجل ليسلم ما يريد إلا الدنيا، فما يسلم حتى يكون الإسلام احب إليه من الدنيا وما عليها ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ؟ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، فَأَتَى قَوْمَهُ، فَقَالَ: " أَيْ قَوْمِ أَسْلِمُوا، فَوَاللَّهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَيُعْطِي عَطَاءً مَا يَخَافُ الْفَقْرَ، فَقَالَ أَنَسٌ: إِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيُسْلِمُ مَا يُرِيدُ إِلَّا الدُّنْيَا، فَمَا يُسْلِمُ حَتَّى يَكُونَ الْإِسْلَامُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا ".
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوپہاڑوں کے درمیان (چرنے والی) بکریاں مانگیں، آپ نے وہ بکریاں اس کو عطا کر دیں پھر وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میری قوم اسلام لے آؤ، کیونکہ اللہ کی قسم!بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا کرتے ہیں کہ فقر وفاقہ کا اندیشہ بھی نہیں رکھتے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: بے شک کوئی آدمی صرف دنیا کی طلب میں بھی مسلمان ہو جا تا تھا، پھر جو نہی وہ اسلام لا تا تھا تو اسلام اسے دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بڑھ کر محبوب ہو جاتا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے دو پہاڑوں کے درمیان چرنے والی بکریاں مانگیں، آپ نے اسے وہ دے دیں، سو وہ اپنی قوم کے پاس آکر کہنے لگا، اے میری قوم، اسلام قبول کر لو، اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر عطیہ دیتا ہے کہ وہ فقر و فاقہ کا اندیشۂ ہی نہیں رکھتا، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ایک انسان محض دنیا کر خاطر مسلمان ہوتا تو اسلام لانے کے بعد اسے اسلام دنیا اور اس کی ہر چیز سے محبوب ہوجاتا۔
وحدثني ابو الطاهر احمد بن عمرو بن سرح ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال: " غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم، غزوة الفتح، فتح مكة، ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، بمن معه من المسلمين، فاقتتلوا بحنين، فنصر الله دينه والمسلمين، واعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم، يومئذ صفوان بن امية مائة من النعم، ثم مائة، ثم مائة ". قال ابن شهاب : حدثني سعيد بن المسيب ، ان صفوان ، قال: والله لقد اعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما اعطاني، وإنه لابغض الناس إلي، فما برح يعطيني، حتى إنه لاحب الناس إلي.وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: " غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَزْوَةَ الْفَتْحِ، فَتْحِ مَكَّةَ، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاقْتَتَلُوا بِحُنَيْنٍ، فَنَصَرَ اللَّهُ دِينَهُ وَالْمُسْلِمِينَ، وَأَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَوْمَئِذٍ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ مِائَةً مِنَ النَّعَمِ، ثُمَّ مِائَةً، ثُمَّ مِائَةً ". قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّ صَفْوَانَ ، قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَعْطَانِي، وَإِنَّهُ لَأَبْغَضُ النَّاسِ إِلَيَّ، فَمَا بَرِحَ يُعْطِينِي، حَتَّى إِنَّهُ لَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ.
یو نس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ فتح یعنی فتح مکہ کے لیے جہاد کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان مسلمانوں کے ساتھ جو آپ کے ہمراہ تھے نکلے اور حنین میں خونریز جنگ کی، اللہ نے اپنے دین کو اور مسلمانوں کو فتح عطا فرما ئی، اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ عطا فرمائے، پھر سواونٹ پھر سواونٹ۔ابن شہاب نے کہا: مجھے سعید بن مسیب نے یہ بیان کیا کہ صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو عطا فرمایا، مجھے تمام انسانوں میں سب سے زیادہ بغض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔پھر آپ مجھے مسلسل عطا فرما تے رہے یہاں تک کہ آپ مجھے تمام انسانوں کی نسبت زیادہ محبوب ہو گئے۔
ابن شہاب بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ فتح مکہ کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مسلمانوں ساتھیوں کے ساتھ نکلے اور حنین میں جنگ لڑی تو اللہ نے اپنے دین اور مسلمانوں کی نصرت فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن صفوان بن امیہ کو سو اونٹ دیے، پھر سو اونٹ دیئے، ابن شہاب کہتے ہیں مجھے سعید بن المسیب نے بتایا، صفوان نے کہا، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرمایا، جو بھی عطا فرمایا، جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم مجھے تمام لوگوں سے زیادہ مبغوض تھے، سو آپ مجھے (اس کے باوجود) دیتے رہے حتی کہ آپ مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ہمارے پاس بحرین (ایک شہر ہے) کا مال آئے تو میں تجھ کو اتنا دوں گا، اور اتنا اور اتنا اور دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا۔“(یعنی تین لپ بھر کر) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی بحرین کا مال آنے سے پہلے، وہ (مال) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد۔ انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا آواز کے لیے جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وعدہ کیا ہو۔ یا اس کا قرض آپ پر آتا ہو تو وہ آئے۔ یہ سن کر میں کھڑا ہوا۔ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر بحرین کا مال آ ئے گا تو تجھ کو اتنا دیں گے اور اتنا اور اتنا۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک لپ بھرا، پھر مجھ سےکہا: اس کو گن۔ میں نے گنا تو وہ پانچ سو نکلے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کا دو گنا اور لے لے (تو تین لپ ہو گئے)۔
ابن جریج نے کہا: مجھے عمرو بن دینار نے محمد بن علی سے خبر دی، انھو ں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، نیز کہا: مجھے محمد بن منکدر نے (بھی) جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے خبردی تھی، انھوں نے کہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو ئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس (بحرین کے گورنر) حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مال آیا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس شخص کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض ہو یا آپ کی طرف سے کسی کے ساتھ وعدہ ہو تو ہمارے پاس آئے۔ (آگے) ابن عیینہ کی حدیث کی مانند۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے، ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس علاء بن حضرمی کی طرف سے مال آیا تو ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، جس کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ قرض ہو یا آپ نے اس سےوعدہ فرمایا ہو، وہ ہمارے پاس آ جائے، جیسا کہ ابن عیینہ کی حدیث ہے۔