كِتَاب الْمُسَاقَاةِ سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا 18. باب بَيْعِ الطَّعَامِ مِثْلاً بِمِثْلٍ: باب: برابر برابر اناج کی بیع۔
بُسر بن سعید نے معمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے گندم کا ایک صاع دے کر اپنا غلام بھیجا اور کہا: اسے بیچ دو، پھر اس (کی قیمت) سے جو خرید لاؤ۔ غلام گیا اور (گندم کے صاع کے عوض) ایک صاع اور صاع سے کچھ زیادہ (جو) لے آیا، جب وہ معمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہیں یہ بات بتائی، تو حضرت معمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تم نے یہ کام کیوں کیا؟ جاؤ اور اسے واپس کرو اور مثل بمثل کے سوا کچھ نہ لو، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتے تھا، آپ فرماتے تھے: "غلے کے عوض غلے کی بیع مثل بمثل ہے۔" کہا: ان دنوں ہماری خوراک جَو کی تھی۔ ان سے کہا گیا: وہ تو اس (گندم) کی مثل نہیں ہے۔ (یعنی دو الگ جنسیں ہیں، اس لیے تفاضل جائز ہے۔) انہوں نے کہا: مجھے خدشہ ہے کہ وہ اس کے مشابہ ہو گی۔
) سلیمان بن بلال نے ہمیں عبدالمجید بن سہیل بن عبدالرحمان سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث بیان کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عدی سے تعلق رکھنے والے ایک انصاری کو بھیجا اور اسے خیبر کا عامل مقرر کیا، وہ جنیب (عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا خیبر کی تمام کھجور اسی طرح کی ہے؟ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! واللہ! نہیں۔ہم ملی جلی کھجور کے دو صاع کے عوض (عمدہ کھجور کا) ایک صاع خریدتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو بلکہ مثل بمثل (یکساں خریدو بیچو) یا پھر اسے بیچ دو اور اس کی قیمت سے دوسری قسم خرید لو، اسی طرح وزن (کے ذریعے سے لین دین کرنا ہو تو بھی برابر ہونا ضروری) ہے۔"
) امام مالک نے عبدالمجید بن سہیل بن عبدالرحمان بن عوف سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو خیبر کو عامل مقرر کیا، وہ آپ کے پاس جنیب (عمدہ قسم کی) کھجور لے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا خیبر کی تمام کھجور اسی طرح کی ہے؟" اس نے عرض کی: واللہ! یا رسول اللہ! نہیں۔ ہم (ملی جلی کھجور کے) دو صاع کے عوض اس کا ایک صاع اور تین کے عوض دو صاع لیتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو، ملی جلی کھجور کو درہموں کے عوض بیچ دو، پھر درہموں سے جنیب (عمدہ) کھجور خرید لو۔"
اسحاق بن منصور نے کہا: ہمیں یحییٰ بن صالح وحاظی سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں معاویہ بن سلام نے حدیث سنائی۔ نیز محمد بن سہیل تمیمی اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی نے۔۔ الفاظ دونوں کے یہی ہیں۔۔ دونوں نے مجھے یحییٰ بن حسان سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں معاویہ بن سلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے یحییٰ بن ابی کثیر نے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے: حضرت بلال رضی اللہ عنہ برنی کھجور لے کر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: "یہ کہاں سے لائے ہو؟" تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارے پاس ردی کھجور تھی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کے لیے اُسے دو صاع کے عوض (اِس کے) ایک صاع سے بیچ دیا۔ تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے افسوس ہوا! تو یہ عین سود ہے، ایسا نہ کرو بلکہ جب تم کھجور خریدنا چاہو تو اسے (ردی کھجور کو) دوسری (نقدی وغیرہ کے عوض کی گئی) بیع کے ذریعے سے بیچ دو، پھر اس (کی قیمت) سے (دوسری قسم) خرید لو۔" ابن سہل نے اپنی حدیث میں "اس وقت" کے الفاظ بیان نہیں کیے
ابونضرہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور لائی گئی تو آپ نے فرمایا: "یہ کھجور ہماری کھجور میں سے نہیں۔" اس پر ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اپنی کھجور کے دو صاع اس کھجور کے ایک صاع کے عوض بیچے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ سود ہے، اسے واپس کرو، پھر ہماری کھجور (نقدی کے عوض) فروخت کرو اور (اس کی قیمت سے) ہمارے لیے یہ کھجور خریدو۔"
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں (ہمارے حصے میں) عام کھجور دی جاتی تھی اور وہ ملی جلی کھجور ہوتی تھی تو ہم اس کے دو صاع کے عوض ایک صاع کا سودا کرتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا: "کھجور کے دو صاع ایک صاع کے عوض (جائز) نہیں، گندم کے دو صاع ایک صاع کے عوض (جائز) نہیں اور نہ ایک درہم دو درہموں کے عوض (جائز ہے۔) "
سعید جریری نے ابونضرہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دینار و درہم یا سونے چاندی کے تبادلے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: کہا یہ دست بدست ہے؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کو خبر دی، میں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دینار و درہم یا سونے چاندی کے تبادلے کے بارے میں سوال کیا تھا تو انہوں نے کہا تھا: کیا دست بدست ہے؟ میں نے جواب دیا تھا: ہاں، تو انہوں نے کہا تھا: اس میں کوئی حرج نہیں (انہوں نے ایک ہی جنس کی صورت میں مساوات کی شرط لگائے بغیر اسے علی الاطلاق جائز قرار دیا۔) انہوں (ابوسعید) نے کہا: کیا انہوں نے یہ بات کہی ہے؟ ہم ان کی طرف لکھیں گے تو وہ تمہیں (غیر مشروط جواز کا) یہ فتویٰ نہیں دیں گے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام سے کوئی کھجوریں لے کر آیا تو آپ نے انہیں نہ پہچانا اور فرمایا: "ایسا لگتا ہے کہ یہ ہماری سرزمین کی کھجوروں میں سے نہیں ہیں۔" اس نے کہا: اس سال ہماری زمین کی کھجوروں میں۔۔ یا ہماری کھجوروں میں۔۔ کوئی چیز (خرابی) تھی، میں نے یہ (عمدہ کھجوریں) لے لیں اور بدلے میں کچھ زیادہ دے دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے دوگنا دیں، تم نے سود کا لین دین کیا، اس کے قریب (بھی) مت جاؤ، جب تمہیں اپنی کھجور کے بارے میں کسی چیز (نقص وغیرہ) کا شک ہو تو اسے فروخت کرو، پھر کھجور میں سے تم جو چاہتے ہو (نقدی کے عوج) خرید لو۔"
داود نے ہمیں ابونضرہ سے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سونا چاندی کے تبادلے کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے اس میں کوئی حرج نہ دیکھا۔ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے اس تبادلے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: (ایک ہی جنس کے تبادلے میں) جو اضافہ ہو گا وہ سود ہے۔ میں نے ان دونوں کے قول کی بنا پر (جس میں انہوں نے ایسی کوئی شرط نہ لگائی تھی) اس بات کا انکار کیا تو انہوں نے کہا: میں تمہیں وہی حدیث بیان کروں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔ آپ کے باغ کا نگران آپ کے پاس عمدہ کھجور کا ایک صاع لایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کھجور اس (عام) قسم کی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "یہ تمہارے پاس کہاں سے آئیں؟" اس نے کہا: میں (اس کے) دو صاع لے کر گیا اور ان کے عوض میں نے یہ ایک صاع خرید لی، بازار میں اِس کا نرخ اتنا ہے اور اُس کا اتنا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر افسوس! تم نے سود کا معاملہ کیا، جب تم یہ (عمدہ کھجور) لینا چاہو تو اپنی کھجور کسی (اور) تجارتی چیز کے عوض فروخت کر دو، پھر اپنی چیز سے جو کھجور چاہو، خرید لو۔" حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: کھجور کے عوض کھجور، زیادہ لائق ہے کہ سود ہو، یا چاندی کے عوض چاندی؟ (ابونضرہ نے) کہا: میں اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے اس سے منع کیا اور میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس نہیں آیا۔ کہا: مجھے ابوصبہاء نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے مکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بھی اسے ناپسند کیا تھا۔
ابوصالح سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: دینار کے بدلے دینار اور درہم کے بدلے درہم مثل بمثل ہو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا، اس نے سود کا معاملہ کیا۔ میں نے ان سے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ تو اس سے مختلف بات کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا: میں نے خود ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا: آپ کی کیا رائے ہے، یہ جو آپ کہتے ہیں کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا اللہ کی کتاب میں پائی ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہ میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی نہ کتاب اللہ میں پائی، بلکہ مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سود ادھار میں ہے
) عبیداللہ بن ابی یزید سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی، آپ نے فرمایا: " (اگر جنسیں مختلف ہوں تو) سود ادھار میں ہی ہے۔"
طاوس نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (مختلف چیزوں کے تبادلے میں) جو دست بدست ہو اس میں سود نہیں ہے۔"
عطاء بن ابی رباح نے مجھے حدیث بیان کی کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا: بیع صَرف (نقدی یا سونے چاندی کے تبادلے) کے حوالے سے آپ کی اپنے قول کے بارے میں کیا رائے ہے، کیا آپ نے یہ چیز رسول اللہ صؒی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا اللہ کی کتاب میں پائی ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان میں سے کوئی بات نہیں کہتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم مجھ سے زیادہ جاننے والے ہو اور رہی اللہ کی کتاب تو میں (اس میں) اس بات کو نہیں جانتا، البتہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مجھے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "متنبہ رہو! سود ادھار میں ہی ہے۔"
|