حدثني محمد بن عباد ، ومحمد بن حاتم وابن ابي عمر جميعا، عن سفيان بن عيينة واللفظ لابن عباد، قال: حدثنا سفيان، عن عمرو ، عن ابي صالح ، قال: سمعت ابا سعيد الخدري ، يقول: " الدينار بالدينار والدرهم بالدرهم مثلا بمثل من زاد او ازداد، فقد اربى، فقلت له: إن ابن عباس يقول غير هذا، فقال: لقد لقيت ابن عباس ، فقلت: ارايت هذا الذي تقول اشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم او وجدته في كتاب الله عز وجل، فقال: لم اسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم اجده في كتاب الله، ولكن حدثني اسامة بن زيد ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: الربا في النسيئة ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ عَبَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: " الدِّينَارُ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ مِثْلًا بِمِثْلٍ مَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ غَيْرَ هَذَا، فَقَالَ: لَقَدْ لَقِيتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقُلْتُ: أَرَأَيْتَ هَذَا الَّذِي تَقُولُ أَشَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ وَجَدْتَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ: لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ أَجِدْهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَكِنْ حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ ".
ابوصالح سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: دینار کے بدلے دینار اور درہم کے بدلے درہم مثل بمثل ہو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا، اس نے سود کا معاملہ کیا۔ میں نے ان سے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ تو اس سے مختلف بات کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا: میں نے خود ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا: آپ کی کیا رائے ہے، یہ جو آپ کہتے ہیں کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا اللہ کی کتاب میں پائی ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہ میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی نہ کتاب اللہ میں پائی، بلکہ مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سود ادھار میں ہے
حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں، دینار، دینار کے عوض، درہم، درہم کے عوض، برابر، برابر ہوں گے، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو وہ سود ہو گا، ابو صالح کہتے ہیں، میں نے ان سے کہا ابن عباس ؓ اس کے خلاف بتاتے ہیں، تو ابو سعید ؓ نے کہا، میں ابن عباس ؓ کو مل چکا ہوں، میں نے ان سے پوچھا، بتائیے، یہ جو کچھ آپ بیان کرتے ہیں، کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یا اسے اللہ عزوجل کی کتاب میں پایا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا، نہ میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور نہ ہی اسے اللہ کی کتاب میں پایا ہے، (یعنی نہ قرآن سے اخذ کیا ہے) لیکن مجھے تو حضرت اسامہ بن زید ؓ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سود صرف ادھار میں ہے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4088
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: الربا في النسيئة، کا مقصد یہ تھا کہ ادھار ہر صورت میں سود ہے، چاہے، تفاضل اور کمی و بیشی ہو یا نہ ہو، لیکن تفاضل یعنی کمی و بیشی صرف اس صورت میں حرام ہے جب ایک جنس کے تبادلہ میں کمی و بیشی ہو، اگر جنس بدل جائے، مثلا گندم کا کھجور سے تبادلہ، دینار کا درہم سے تبادلہ، تو پھر تفاضل جائز ہو گا، لیکن ادھار معاملہ کرنا سود ہو گا۔ اس لیے یہ معاملہ نقد بنقد کرنا ہو گا، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کو عام سمجھ لیا، کہ ادھار درست نہیں، کمی و بیشی ہر صورت میں درست ہے، جبکہ صورت حال یہ ہے کہ کمی و بیشی جنس کے بدلنے کی صورت میں جائز ہے، لیکن ادھار تبادلہ کی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔