حدثنا محمد بن يحيى، قال: ثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعيد، قال: ثني ابي عن صالح، عن ابن شهاب، قال: ثني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، عن عمار بن ياسر، رضي الله عنهما قال: عرس رسول الله صلى الله عليه وسلم بذات الجيش ومعه عائشة رضي الله عنها زوجه فانقطع عقد لها من جزع ظفار فحبس الناس ابتغاء عقدها ذلك حتى اضاء الفجر وليس مع الناس ماء فتغيظ عليها ابو بكر رضي الله عنه وقال: حبست الناس وليس معهم ماء فانزل الله عز وجل على رسوله رخصة التطهر بالصعيد الطيب فقام المسلمون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فضربوا بايديهم الارض ثم رفعوا ايديهم ولم يقبضوا من التراب شيئا فمسحوا وجوههم وايديهم إلى المناكب ومن بطون ايديهم إلى الآباط قال ابن شهاب: ولا يعتبر الناس بهذا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: ثَنِي أَبِي عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: ثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: عَرَّسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَاتِ الْجَيْشِ وَمَعَهُ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجُهُ فَانْقَطَعَ عِقْدٌ لَهَا مِنْ جَزْعِ ظَفَارٍ فَحَبَسَ النَّاسَ ابْتِغَاءُ عِقْدِهَا ذَلِكَ حَتَّى أَضَاءَ الْفَجْرُ وَلَيْسَ مَعَ النَّاسِ مَاءٌ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ: حَبَسْتِ النَّاسَ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَسُولِهِ رُخْصَةَ التَّطَهُّرِ بِالصَّعِيدِ الطَّيِّبِ فَقَامَ الْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبُوا بِأَيْدِيهِمُ الْأَرْضَ ثُمَّ رَفَعُوا أَيْدِيَهُمْ وَلَمْ يَقْبِضُوا مِنَ التُّرَابِ شَيْئًا فَمَسَحُوا وجُوهَهُمْ وَأَيْدِيَهُمْ إِلَى الْمَنَاكِبِ وَمَنْ بُطُونِ أَيْدِيهِمْ إِلَى الْآبَاطِ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَلَا يَعْتَبِرُ النَّاسُ بِهَذَا.
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذات الجیش نامی جگہ پر پڑاؤ ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ اس دوران آپ کا ظفاری (ساحل یمن کے پاس ایک شہر) عقیق کا بنا ہوا ہار ٹوٹ کر گر گیا۔ اس کی تلاش نے پورے قافلے کو روک لیا، یہاں تک کہ صبح روشن ہو گئی اور لوگوں کے پاس پانی بھی نہ تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ناراض ہو کر کہا: آپ نے پورے قافلے کو روک رکھا ہے اور ان کے پاس (وضو کے لیے) پانی بھی نہیں ہے۔ اسی اثنا میں اللہ تعالی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پاک مٹی سے حصولِ طہارت کی رخصت سے متعلق آیت نازل فرمائی۔ تمام مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور مٹی لیے بغیر ہاتھوں کو اٹھا لیا اور چہروں، کندھوں تک ہاتھوں اور ہاتھوں کی اندرونی جانب سے بغلوں تک مسح کیا۔ ابن شہاب رحمہ اللہ نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ اس فعل (کندھوں اور بغلوں کے مسح) پر لوگوں کا عمل نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح: مسند الإمام أحمد: 264,263/4، سنن أبى داود: 320، سنن النسائي: 315، اس حديث كو امام ابن حبان رحمہ اللہ 1310، نے ”صحيح“ كها هے، حافظ ابن العراقي رحمہ اللہ طرح التقريب: 95/2 نے اس كي سند كو ”جيد“ كها هے.»
حدثنا عبد الله بن هاشم، قال: ثنا يحيى بن سعيد، قال: ثنا عوف، قال: ثنا ابو رجاء، قال: ثنا عمران بن حصين رضي الله عنه قال: كنا في سفر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس فلما انفتل من صلاته إذا رجل معتزل لم يصل مع القوم فقال: «ما منعك يا فلان ان تصلي مع القوم؟» فقال: يا رسول الله اصابتني جنابة ولا ماء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عليك بالصعيد الطيب فإنه يكفيك» .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ، قَالَ: ثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: ثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: ثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، قَالَ: ثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِهِ إِذَا رَجُلٌ مُعْتَزِلٌ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ فَقَالَ: «مَا مَنَعَكَ يَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ؟» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَاءَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ الطَّيِّبِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ» .
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے، تو (دیکھا) ایک آدمی الگ بیٹھا تھا، جس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: فلاں! آپ نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھی؟ کہنے لگے: اللہ کے رسول! میں جنبی ہو گیا ہوں اور پانی دستیاب نہیں، فرمایا: مٹی استعمال کر لیں، یہی کافی ہے۔
حدثنا محمد بن يحيى، قال: ثنا يزيد بن هارون، قال: ثنا محمد يعني ابن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «جعلت لي الارض مسجدا وطهورا» .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا» .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین میرے لیے مسجد اور پاکی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔
حدثنا محمد، قال: ثنا حجاج الانماطي، قال: ثنا حماد، عن ثابت، وحميد، عن انس، رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «جعلت لي كل ارض طيبة مسجدا وطهورا» .حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: ثَنَا حَجَّاجٌ الْأَنْمَاطِيُّ، قَالَ: ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، وَحُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «جُعِلَتْ لِي كُلُّ أَرْضٍ طَيِّبَةٍ مَسْجِدًا وَطَهُورًا» .
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساری پاک زمین میرے لیے مسجد اور پاکی کا ذریعہ بنادی گئی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح: حديث السّراج: 313، المختارة للحافظ الضياء المقدسي: 1653، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ: فتح الباري: 1/ 438، نے اس كي سند كو صحيح كها هے.»
حدثنا عبد الله بن هاشم، عن يحيى بن سعيد، عن شعبة، قال: ثنا الحكم عن ذر، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، ان رجلا، اتى عمر رضي الله عنه فقال: إني اجنبت فلم اجد ماء فقال: لا تصل فقال عمار: اما تذكر يا امير المؤمنين إذ انا وانت في سرية فاجنبنا فلم نجد ماء فاما انت فلم تصل واما انا فتمعكت في التراب وصليت فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إنما يكفيك ان تضرب بيديك الارض ثم تنفخ ثم تمسح بهما وجهك وكفيك» ، فقال عمر رضي الله عنه: اتق الله يا عمار فقال: إن شئت لم احدث به وقال الحكم: وحدثنيه ابن عبد الرحمن بن ابزى عن ابيه حديث ذر قال: وثني سلمة عن ذر في هذا الإسناد الذي ذكر الحكم قال: قال عمر رضي الله عنه: بل نوليك ما توليت.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: ثَنَا الْحَكَمُ عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا، أَتَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدْ مَاءً فَقَالَ: لَا تُصَلِّ فَقَالَ عَمَّارٌ: أَمَا تَذْكُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدْ مَاءً فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فِي التُّرَابِ وَصَلَّيْتُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا يَكْفِيكَ أَنْ تَضْرِبَ بِيَدَيْكَ الْأَرْضَ ثُمَّ تَنْفُخَ ثُمَّ تَمَسَّحَ بِهِمَا وَجْهَكَ وَكَفَّيْكَ» ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اتَّقِ اللَّهَ يَا عَمَّارُ فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ لَمْ أُحَدِّثْ بِهِ وَقَالَ الْحَكَمُ: وَحدَّثَنِيهِ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبْزَى عَنْ أَبِيهِ حَدِيثِ ذَرٍّ قَالَ: وَثَنِي سَلَمَةُ عَنْ ذَرٍّ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ الَّذِي ذَكَرَ الْحَكَمُ قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بَلْ نُوَلِّيكَ مَا تَوَلَّيْتَ.
عبدالرحمن بن ابزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ایک آدمی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگا: میں جنبی ہوں، پانی نہیں ملا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نماز ہی نہ پڑھیے، سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کہنے لگے: امیر المومنین یاد نہیں، جب میں اور آپ ایک قافلہ میں (سفر کر رہے) تھے؟ ہم جنبی ہو گئے اور پانی نہ ملا، آپ نے نماز نہ پڑھی، مگر میں نے (جانوروں کی طرح) زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: آپ کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارتے، پھر پھونک مار کر اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر مل لیتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: عمار! اللہ سے ڈریے! سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اگر آپ چاہتے ہیں، تو میں یہ حدیث بیان نہیں کروں گا۔ حکم رحمہ اللہ کہتے ہیں: عبدالرحمن بن ابزیٰ رحمہ اللہ نے مجھے بھی یہ حدیث اسی طرح بیان کی ہے، نیز حکم والی سند میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ اپنی بیان کردہ روایت کے خود ذمہ دار ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح البخاري: 339، صحيح مسلم: 112/368»
حدثنا محمد بن يحيى، قال: ثنا عفان بن مسلم، قال: ثنا ابان العطار، قال: ثنا قتادة، عن عزرة، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، عن عمار بن ياسر، رضي الله عنه ان نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقول في التيمم: «ضربة للوجه والكفين» .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: ثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ، قَالَ: ثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي التَّيَمُّمِ: «ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ» .
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمّم کے متعلق فرمایا: چہرے اور ہاتھوں کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح وللحديث شواهد: مسند الإمام أحمد: 263/4، سنن أبى داود: 327، سنن الترمذي: 144، اس حديث كے بارے ميں امام دارمي رحمہ اللہ فرماتے هيں: صَحْ إِسْنَادُهُ: سنن الدارمي: 156/1، امام ترمذي رحمہ اللہ نے اسے ”حسن صحيح“، امام ابن خزيمه رحمہ اللہ 267 اور امام ابن حبان رحمہ اللہ 1303 نے ”صحيح“ كها هے، البته اس سند ميں قتاده ”مدلس“ هيں، سماع كي تصريح نهيں كي.»
حدثنا محمد بن يحيى، قال: ثنا ابو صالح، قال: ثني الليث قال: ثنا جعفر بن ربيعة عن عبد الرحمن بن هرمز عن عمير مولى ابن عباس انه سمعه يقول: اقبلت انا وعبد الله بن يسار مولى ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حتى دخلنا على ابي الجهيم بن الحارث بن الصمة الانصاري فقال ابو الجهيم رضي الله عنه: اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم من نحو بئر جمل فلقيه رجل فسلم عليه فلم يرد رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اقبل على الجدار فمسح بوجهه ويديه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثَنَا أَبُو صَالِحٍ، قَالَ: ثَنِي اللَّيْثُ قَالَ: ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: أَقْبَلَتْ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَسَارٍ مَوْلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبِي الْجُهَيْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ الْأَنْصَارِيِّ فَقَالَ أَبُو الْجُهَيْمِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَحْوِ بِئْرِ جَمَلٍ فَلَقِيَهُ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الْجِدَارِ فَمَسَحَ بِوَجْهِهِ وَيَدَيْهِ.
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں اور ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے غلام عبد اللہ بن یسار رضی اللہ عنہ ابو جہیم بن حارث بن صمّہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، ابو جہیم رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برٔجمل کی طرف سے تشریف لا رہے تھے، ایک آدمی نے آپ کو سلام کہا، آپ نے جواب نہ دیا، حتٰی کہ دیوار کے پاس آکر چہرے اور دونوں ہاتھوں پر مسح کیا۔ (یعنی تیمم کر کے جواب دیا)
تخریج الحدیث: «صحيح البخاري: 337، صحيح مسلم: 114/369»
حدثنا محمد بن يحيى، قال: ثنا عمر بن حفص بن غياث، قال: ثنا ابي قال: انباني الوليد بن عبيد الله بن ابي رباح، ان عطاء، حدثه عن ابن عباس، رضي الله عنهما ان رجلا، اجنب في شتاء فسال فامر بالغسل فاغتسل فمات فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: «ما لهم قتلوه قتلهم الله ثلاثا قد جعل الله الصعيد او التيمم طهورا» ، شك ابن عباس ثم اثبته بعد.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: ثَنَا أَبِي قَالَ: أَنْبَأَنِي الْوَلِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّ عَطَاءً، حَدَّثَهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا، أَجْنَبَ فِي شِتَاءٍ فَسَأَلَ فَأُمِرَ بِالْغَسْلِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لَهُمْ قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ ثَلَاثًا قَدْ جَعَلَ اللَّهُ الصَّعِيدَ أَوْ التَّيَمُّمَ طَهُورًا» ، شَكَّ ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ أَثْبَتَهُ بَعْدُ.
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی سردی کے موسم میں جنبی ہو گیا۔ اس نے مسئلہ پوچھا، تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس نے غسل کیا، تو مر گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ان کو برباد کرے، انہوں نے اسے مار ڈالا (یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی) اللہ نے مٹی یا تیمم کو تمھارے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنایا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو شک تھا، بعد میں انہوں نے یقین سے بیان کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن: مسند الإمام أحمد: 380/1، سنن ابن ماجه: 572، سنن الدارقطني: 191,190/1، اس حديث كو امام ابن خزيمه رحمہ اللہ 273، امام ابن حبان رحمہ اللہ 1314 اور امام حاكم رحمہ اللہ 165/1 نے ”صحيح“ كها هے، حافظ ذهبي رحمہ اللہ نے ان كي موافقت كي هے. وليد بن عبد الله بن ابي رباح راوي ”ثقه“ هيں، امام دار قطني رحمہ اللہ: سنن الدار قطني: 72/3 اور امام بيهيتي رحمہ اللہ: السنن الكبري: 6/6 كا اسے ”ضعيف“ كهنا مرجوح هے. اسے امام يحيٰي بن معين رحمہ اللہ نے ”ثقه“ كها هے، الجرح والتعديل لابن ابي حاتم: 9/9، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ”الثقات“ 549/7 ميں ذكر كيا هے. امام حاكم رحمہ الله فرماتے هيں: هُوَ قَلِيلُ الْحَدِيثِ جِدًّا، ان ائمه كرام نے اس كي حديث كي تصحيح كر ركهي هے، لهذا اس كي توثيق هي راجح هے.»
حدثني محمد بن إسحاق بن خزيمة، قال: ثنا يوسف بن موسى، قال: ثنا جرير، عن عطاء بن السائب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، رضي الله عنهما رفعه في قوله تعالى {وإن كنتم مرضى او على سفر} [النساء: ٤٣] قال: «إذا كانت بالرجل الجراحة في سبيل الله او القروح او الجدري فيجنب فيخاف إن اغتسل ان يموت فليتيمم» .حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَيْمَةَ، قَالَ: ثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: ثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا رَفَعَهُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى {وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ} [النساء: ٤٣] قَالَ: «إِذَا كَانَتْ بِالرَّجُلِ الْجِرَاحَةُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ الْقُرُوحُ أَوِ الْجُدَرِيُّ فَيَجْنِبُ فَيَخَافُ إِنِ اغْتَسَلَ أَنْ يَمُوتَ فَلْيَتَيَمَّمْ» .
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت: «وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ»(اگر تم بیمار يا مسافر ہو۔۔۔۔۔۔) کی تفسیر میں مرفوعاً بیان کرتے ہیں: اگر کسی آدمی کو اللہ کی راہ میں زخم لگ جائے، یا پھوڑا، پھنسی ہو، یا چیچک کا مرض لاحق ہو اور وہ جنبی ہو جائے غسل کرنے کی صورت میں مرنے کا اندیشہ ہو، تو تیمم کر لے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف: سنن الدار قطني: 177/1، اس حديث كو امام ابن خزيمه رحمہ الله 272 نے ”صحيح“ كها هے، البته يه روايت عطاء بن سائب كے اختلاط كي وجه سے ”ضعيف“ هے. جرير كي مخالفت ميں على بن عاصم نے اسے موقوف ذكر كيا هے، يه روايت ان كي بيان كرده هے، جنهوں نے عطاء سے اختلاط كے بعد سنا هے.»