كِتَاب الطَّهَارَةِ طہارت کے احکام و مسائل The Book of Purification 12. باب اسْتِحْبَابِ إِطَالَةِ الْغُرَّةِ وَالتَّحْجِيلِ فِي الْوُضُوءِ: باب: اعضاء وضو کو چمکانے کے لیے مقررہ حد سے زیادہ دھونے کا استحباب۔ Chapter: The recommendation to increase the area washed for the forehead, arms, and legs well when performing wudu’ عمارہ بن غزیہ انصاری نےنعیم بن عبداللہ مجمر سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا، انہوں نے اپنا چہرہ دھویا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر اپنا دایاں بازو دھویا حتیٰ کہ اوپر بازو کی ابتداء تک پہنچے، پھر اپنا بایاں بازو دھویا حتیٰ کہ اوپر بازو کی ابتداء تک پہنچے، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پاؤں دھویا حتی کہ اوپر پنڈلی کی ابتداء تک پہنچے، پھر اپنا بایاں پاؤں دھویا حتیٰ کہ اوپر پنڈلی کی ابتداء تک پہنچے، پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کےدن اچھی طرح وضو کرنے کی وجہ سے تم لوگ ہی روشن چہروں اور سفید چمکدار ہاتھ پاؤں والے ہو گے، لہٰذا تم میں سے جو اپنے چہرے اور ہاتھ پاؤں کی روشنی اور سفیدی کو آگے تک بڑھا سکے، بڑھا لے۔“ نعیم بن عبداللہ مجمر بیان کرتے ہیں: کہ میں نے ابو ہریرہ ؓ کو وضو کرتے دیکھا، انھوں نے چہرہ مکمل دھویا، پھر اپنا دایاں ہاتھ دھویا، حتیٰ کہ بازو کا بھی ایک حصہ دھویا، پھر اپنا بایاں ہاتھ دھویا، حتیٰ کہ بازو کا کچھ حصہ بھی دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پاؤں دھویا، حتیٰ کہ پنڈلی تک پہنچے، پھر اپنا بایاں پاؤں دھویا یہاں تک کہ پنڈلی کا کچھ حصہ دھویا۔ پھر کہا: میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم قیامت کے دن کامل وضو کرنے کی وجہ سے روشن و منور چہرے اور روشن اور منوّر ہاتھ پاؤں والے ہو گے، تو تم میں سے جو اپنے چہرے اور ہاتھ پاؤں کی چمک اور روشنی کو بڑھا سکے، بڑھا لے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الوضوء، باب: فضل الوضوء، والغر المحجلون من آثار الوضوء برقم (3) مختصراً - انظر ((التحفة)) برقم (14643)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سعید بن ابی ہلال نے نعیم بن عبداللہ سےروایت کی کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اپنا چہرہ اور بازو دھوئےیہاں تک کہ کندھوں کے قریب پہنچ گئے، پھر انہوں نے اپنے پاؤں دھوئے، یہاں تک کہ اوپر پنڈلیوں تک لے گئے، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ” میری امت کے لوگ قیامت کے دن وضو کے اثر سے روشن چہروں اور سفید چمکدار ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے، لہٰذا تم میں سے جو اپنی روشنی کو آگے تک بڑھا سکتا ہے، بڑھا لے۔“ نعیم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: کہ اس نے ابو ہریرہ ؓ کو وضو کرتے دیکھا، انھوں نے اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، یہاں تک کہ کندھوں کے قریب پہنچ گئے۔ پھر انھوں نے اپنے پاؤں دھوئے، حتیٰ کہ پنڈلیوں تک پہنچ گئے۔ پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میرے امتی قیامت کے دن وضو کے اثر سے روشن چہرہ اور چمک دار ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے، تم میں سے جو اپنی روشنی اور نورانیت بڑھا سکے، تو ایسا کرے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (578)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا سويد بن سعيد ، وابن ابي عمر جميعا، عن مروان الفزاري ، قال ابن ابي عمر، حدثنا مروان، عن ابي مالك الاشجعي سعد بن طارق ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن حوضي ابعد من ايلة من عدن، لهو اشد بياضا من الثلج، واحلى من العسل باللبن، ولآنيته اكثر من عدد النجوم، وإني لاصد الناس عنه، كما يصد الرجل إبل الناس عن حوضه، قالوا: يا رسول الله، اتعرفنا يومئذ؟ قال: نعم، لكم سيما، ليست لاحد من الامم تردون علي غرا محجلين من اثر الوضوء ".حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنْ مَرْوَانَ الْفَزَارِيِّ ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ حَوْضِي أَبْعَدُ مِنْ أَيْلَةَ مِنْ عَدَنٍ، لَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ الثَّلْجِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ بِاللَّبَنِ، وَلَآنِيَتُهُ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ النُّجُومِ، وَإِنِّي لَأَصُدُّ النَّاسَ عَنْهُ، كَمَا يَصُدُّ الرَّجُلُ إِبِلَ النَّاسِ عَنْ حَوْضِهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَعْرِفُنَا يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَكُمْ سِيمَا، لَيْسَتْ لِأَحَدٍ مِنَ الأُمَمِ تَرِدُونَ عَلَيَّ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ أَثَرِ الْوُضُوءِ ". مروان نے ابو مالک اشجعی سعد بن طارق سے، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا حوض عدن سے ایلہ تک کے فاصلے سے زیادہ وسیع ہے اور (اس کا پانی) برف سے زیادہ سفید اور شہد سے ملے دودھ سے زیادہ شیریں ہے اور اس کے برتن ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں، (یہ خالصتاً میری امت کے لیے ہے، اس لیے) میں (امت کے علاوہ دوسرے) لوگوں کو اس سے روکوں گا، جیسےآدمی اپنےحوض سے لوگوں کے اونٹوں کو روکتا ہے۔“ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول!کیا اس دن آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، تمہاری ایک علامت ہو گی جو دوسری کسی امت کی نہیں ہو گی، تم وضو کے اثر سے چمکتے ہوئے چہرے اور ہاتھ پاؤں کے ساتھ میرے پاس آؤ گے۔“ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا حوض عدن سے ایلہ تک کے فاصلہ سے زیادہ بڑا ہے، اور (اس کا پانی) یقیناً برف سے زیادہ سفید اور شہد ملے ہوئے دودھ سے زیادہ شیریں ہے، اور اس کے برتنوں کی تعداد یقیناً ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہے، اور میں لوگوں کو اس سے روکوں گا جس طرح ایک انسان اپنے حوض سے دوسرے لوگوں کے اونٹوں کو روکتا ہے۔ “ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا اس دن آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں! تمھارے لیے ایک علامت ہو گی، جو دوسری کسی امت میں نہیں ہو گی، تم میرے پاس وضو کے اثر سے روشن چہرے اور چمک دار ہاتھ پاؤں سے پہنچو گے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابن ماجه في ((سننه)) في الزهد، باب: صفة امة محمد صلی اللہ علیہ وسلم برقم (4282) انظر ((التحفة)) برقم (13399)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا حدثنا ابو كريب ، وواصل بن عبد الاعلى واللفظ لواصل، قالا: حدثنا ابن فضيل ، عن ابي مالك الاشجعي ، عن ابي حازم ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ترد علي امتي الحوض، وانا اذود الناس عنه كما يذود الرجل إبل الرجل عن إبله، قالوا: يا نبي الله، اتعرفنا؟ قال: نعم، لكم سيما ليست لاحد غيركم، تردون علي غرا، محجلين من آثار الوضوء، وليصدن عني طائفة منكم، فلا يصلون، فاقول: يا رب، هؤلاء من اصحابي، فيجيبني ملك، فيقول: وهل تدري ما احدثوا بعدك؟ ".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَوَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى وَاللَّفْظُ لِوَاصِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَرِدُ عَلَيَّ أُمَّتِي الْحَوْضَ، وَأَنَا أَذُودُ النَّاسَ عَنْهُ كَمَا يَذُودُ الرَّجُلُ إِبِلَ الرَّجُلِ عَنْ إِبِلِهِ، قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَتَعْرِفُنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، لَكُمْ سِيمَا لَيْسَتْ لِأَحَدٍ غَيْرِكُمْ، تَرِدُونَ عَلَيَّ غُرًّا، مُحَجَّلِينَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ، وَلَيُصَدَّنَّ عَنِّي طَائِفَةٌ مِنْكُمْ، فَلَا يَصِلُونَ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، هَؤُلَاءِ مِنْ أَصْحَابِي، فَيُجِيبُنِي مَلَكٌ، فَيَقُولُ: وَهَلْ تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ؟ ". (مروان کے بجائے) ابن فضیل نے ابو مالک اشجعی سے، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میرے پاس حوض پر آئے گی اور میں اسی طرح (دوسرے) لوگوں کو اس (حوض) سے دور ہٹاؤں گا جیسےایک آدمی دوسرے آدمی کے اونٹوں کو اپنے اونٹوں سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے نبی!کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، تمہاری ایک نشانی ہو گی جو تمہارے سوا کسی اور کی نہیں ہو گی، تم میرے پا س وضو کےاثرات سے روشن چہرے اور چمکدارہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤ گے۔ تم میں سےایک گروہ کو زبردستی میرے پاس آنے سےروک دیا جائے گا، تو وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس پر میں کہوں گا: اے میرے رب!یہ میرے ساتھیوں میں سے ہیں۔ ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا او رکہے گا: کیا آپ جانتے ہیں انہوں نےآپ کے بعد کیا کیا کام ایجاد کیے تھے؟“ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میری امت میرے پاس حوض پر آئے گی اور میں اس سے لوگوں کو ہٹاؤں گا۔ جیسے ایک مرد اپنے اونٹوں سے دوسرے انسان کے اونٹوں کو ہٹاتا ہے۔" انھوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) نے عرض کیا اے اللہ کے نبیؐ! کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا: "ہاں! تمھاری ایک نشانی ہوگی جو تمھارے سوا کسی میں نہیں ہوگی۔ تم میرے پاس وضو کے اثرات کی بنا پر روشن چہرے، چمک دار ہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤ گے۔ تم میں سے ایک گروہ کو میرے پاس آنے سے روک دیا جائے گا تو وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا۔ تو میں کہوں گا اے میرے رب! یہ میرے ساتھیوں میں سے ہیں تو مجھے ایک فرشتہ جواب دے گا۔ اور کیا آپ جانتے ہیں انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئے کام نکالے تھے۔"حدیث حاشیہ: فوائد ومسائلان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ آ پ کو علم کلی حاصل ہے یا آپ عالم الغیب ہیں وگرنہ وہ یہ سوال نہ کرتے کہ اتعرفنا؟ کیا آ پ ہمیں پہنچانیں گے اور نہ ہی آپ یہ جواب دیتے۔نعم لکم سیما لیست لا حد غیرکم،تمہاری ایک ایسی علامت ہوگی جو کسی اور میں نہیں ہوگی،علم کلی رکھنے والے کو کسی علامت یا نشانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔(حدیث کے جملہ اھل ت دری ما احدثوا بعدک کی بحث اس مفہوم کی آخری حدیث کے بعد آئے گی۔) Abu Hurairah (RA) reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) said: My people would come to me on the Cistern and I would drive away persons (from it) just as a person drives away other people's camels from his camels. They (the hearers) said: Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) , would you recognize us? He replied: Yea, you would have a mark which other people will not have. You would come to me with a white blaze on your foreheads and white marks on your feet because of the traces of ablution. A group among you would be prevented from coming to me, and they would not meet me, and I would say: O my Lord, they are my companions. Upon this an angel would reply to me saying: Do you know what these people did after you.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حضرت حذیفہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ میرا حوض ایلہ سے عدن تک کے فاصلے سے زیادہ وسیع ہے، اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے! میں اس سے اسی طرح (دوسرے)لوگوں کو ہٹاؤں گا، جس طرح آدمی اجنبی اونٹوں کو اپنے حوض سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ نے عرض کی: اےاللہ کے رسول! اور کیا آپ ہمیں پہچان لیں گے؟آپ نے فرمایا:”ہاں، تم میرے پاس روشن چہرے اور چمکتے ہوئے سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤگے، یہ علامت تمہارے سوا کسی اور میں نہیں ہو گی۔“حدیث حاشیہ: مروان نے ابو مالک اشجعی سعد بن طارق سے، انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میرا حوض عدن سے ایلہ تک کے فاصلے سے زیادہ وسیع ہے اور (اس کا پانی) برف سے زیادہ سفید اور شہد سے ملے دودھ سے زیادہ شیریں ہے اور اس کے برتن ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں، (یہ خالصتاً میری امت کے لیے ہے،اس لیے) میں (امت کے علاوہ دوسرے) لوگوں کو اس سے روکوں گا، جیسےآدمی اپنےحوض سے لوگوں کے اونٹوں کو روکتا ہے۔“ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول!کیا اس دن آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا:”ہاں، تمہاری ایک علامت ہو گی جو دوسری کسی امت کی نہیں ہو گی، تم وضو کے اثر سے چمکتے ہوئے چہرے اور ہاتھ پاؤں کے ساتھ میرے پاس آؤ گے۔“حدیث حاشیہ: (مروان کے بجائے) ابن فضیل نے ابو مالک اشجعی سے،انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری امت میرے پاس حوض پر آئے گی اور میں اسی طرح (دوسرے) لوگوں کو اس (حوض) سے دور ہٹاؤں گا جیسےایک آدمی دوسرے آدمی کے اونٹوں کو اپنے اونٹوں سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے نبی!کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا:”ہاں، تمہاری ایک نشانی ہو گی جو تمہارے سوا کسی اور کی نہیں ہو گی، تم میرے پا س وضو کےاثرات سے روشن چہرے اور چمکدارہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤ گے۔ تم میں سےایک گروہ کو زبردستی میرے پاس آنے سےروک دیا جائے گا، تو وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس پر میں کہوں گا: اے میرے رب!یہ میرے ساتھیوں میں سے ہیں۔ ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا او رکہے گا: کیا آپ جانتے ہیں انہوں نےآپ کے بعد کیا کیا کام ایجاد کیے تھے؟“ حدیث حاشیہ: حضرت حذیفہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ میرا حوض ایلہ سے عدن تک کے فاصلے سے زیادہ وسیع ہے، اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے! میں اس سے اسی طرح (دوسرے)لوگوں کو ہٹاؤں گا، جس طرح آدمی اجنبی اونٹوں کو اپنے حوض سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ نے عرض کی: اےاللہ کے رسول! اور کیا آپ ہمیں پہچان لیں گے؟آپ نے فرمایا:”ہاں، تم میرے پاس روشن چہرے اور چمکتے ہوئے سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤگے، یہ علامت تمہارے سوا کسی اور میں نہیں ہو گی۔“ حدیث حاشیہ: (مروان کے بجائے) ابن فضیل نے ابو مالک اشجعی سے،انہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری امت میرے پاس حوض پر آئے گی اور میں اسی طرح (دوسرے) لوگوں کو اس (حوض) سے دور ہٹاؤں گا جیسےایک آدمی دوسرے آدمی کے اونٹوں کو اپنے اونٹوں سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے نبی!کیا آپ ہمیں پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا:”ہاں، تمہاری ایک نشانی ہو گی جو تمہارے سوا کسی اور کی نہیں ہو گی، تم میرے پا س وضو کےاثرات سے روشن چہرے اور چمکدارہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤ گے۔ تم میں سےایک گروہ کو زبردستی میرے پاس آنے سےروک دیا جائے گا، تو وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس پر میں کہوں گا: اے میرے رب!یہ میرے ساتھیوں میں سے ہیں۔ ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا او رکہے گا: کیا آپ جانتے ہیں انہوں نےآپ کے بعد کیا کیا کام ایجاد کیے تھے؟“حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم595٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)247.01٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)365٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)247.01٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)547٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)247.01٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام582 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے“ (المدثر 71 اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں۔ مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔ نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (580)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا علي بن مسهر ، عن سعد بن طارق ، عن ربعي بن حراش ، عن حذيفة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن حوضي لابعد من ايلة من عدن والذي نفسي بيده، إني لاذود عنه الرجال، كما يذود الرجل الإبل الغريبة، عن حوضه، قالوا: يا رسول الله، وتعرفنا؟ قال: نعم، تردون علي غرا، محجلين من آثار الوضوء، ليست لاحد غيركم ".وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ حَوْضِي لَأَبْعَدُ مِنْ أَيْلَةَ مِنْ عَدَنٍ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَذُودُ عَنْهُ الرِّجَالَ، كَمَا يَذُودُ الرَّجُلُ الإِبِلَ الْغَرِيبَةَ، عَنْ حَوْضِهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَتَعْرِفُنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، تَرِدُونَ عَلَيَّ غُرًّا، مُحَجَّلِينَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ، لَيْسَتْ لِأَحَدٍ غَيْرِكُمْ ". حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ میرا حوض ایلہ سے عدن تک کے فاصلے سے زیادہ وسیع ہے، اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے! میں اس سے اسی طرح (دوسرے) لوگوں کو ہٹاؤں گا، جس طرح آدمی اجنبی اونٹوں کو اپنے حوض سے ہٹاتا ہے۔“ صحابہ نے عرض کی: اےاللہ کے رسول! اور کیا آپ ہمیں پہچان لیں گے؟آپ نے فرمایا: ”ہاں، تم میرے پاس روشن چہرے اور چمکتے ہوئے سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آؤگے، یہ علامت تمہارے سوا کسی اور میں نہیں ہو گی۔“ حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلا شبہ میرا حوض اس سے زیادہ مسافت والا ہے، جتنی ایلہ کی عدن سے ہے، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے! میں بلاشبہ اس سے مردوں کو روکوں گا جس طرح آدمی اپنے حوض سے اجنبی اونٹوں کو دور کرتا ہے۔“ انھوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں کیسے پہچانیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: ”ہاں! تم میرے پاس اس حال میں آؤ گے، کہ وضو کے اثرات کی وجہ سے روشن چہرے، چمک دار ہاتھ پاؤں سے آؤ گے، یہ علامت تمھارے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابن ماجه في ((سننه)) في الزهد، باب: ذكر الحوض برقم (4302) انظر ((التحفة)) برقم (3315)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا يحيى بن ايوب ، وسريج بن يونس ، وقتيبة بن سعيد ، وعلي بن حجر جميعا، عن إسماعيل بن جعفر ، قال ابن ايوب، حدثنا إسماعيل، اخبرني العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، اتى المقبرة، فقال: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، وددت انا قد راينا إخواننا، قالوا: اولسنا إخوانك يا رسول الله؟ قال: انتم اصحابي، وإخواننا الذين لم ياتوا بعد، فقالوا: كيف تعرف من لم يات بعد من امتك يا رسول الله؟ فقال: ارايت لو ان رجلا له خيل غر، محجلة بين ظهري خيل دهم بهم، الا يعرف خيله؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: فإنهم ياتون غرا، محجلين من الوضوء، وانا فرطهم على الحوض، الا ليذادن رجال عن حوضي، كما يذاد البعير الضال اناديهم، الا هلم؟ فيقال: إنهم قد بدلوا بعدك، فاقول: سحقا، سحقا ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ جميعا، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَتَى الْمَقْبُرَةَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَيْنَا إِخْوَانَنَا، قَالُوا: أَوَلَسْنَا إِخْوَانَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابِي، وَإِخْوَانُنَا الَّذِينَ لَمْ يَأْتُوا بَعْدُ، فَقَالُوا: كَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ يَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَهُ خَيْلٌ غُرٌّ، مُحَجَّلَةٌ بَيْنَ ظَهْرَيْ خَيْلٍ دُهْمٍ بُهْمٍ، أَلَا يَعْرِفُ خَيْلَهُ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّهُمْ يَأْتُونَ غُرًّا، مُحَجَّلِينَ مِنَ الْوُضُوءِ، وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَى الْحَوْضِ، أَلَا لَيُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِي، كَمَا يُذَادُ الْبَعِيرُ الضَّالُّ أُنَادِيهِمْ، أَلَا هَلُمَّ؟ فَيُقَالُ: إِنَّهُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: سُحْقًا، سُحْقًا ". اسماعیل (بن جعفر) نے علاء سے، انہوں نے اپنے والد سےاور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں آئے اور فرمایا: ”اے ایمان والی قوم کے گھرانے! تم سب پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمہیں ساتھ ملنے والے ہیں، میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو (بھی) دیکھا ہوتا۔“ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ آپ نے جواب دیا: ”تم میرے ساتھی ہو اور ہمارے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک (دنیا میں) نہیں آئے۔“ اس پر انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو، جو ابھی (دنیامیں) نہیں آئے، کیسے پہچانیں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ”بتاؤ! اگر کالے سیاہ گھوڑوں کے درمیان کسی کے سفید چہرے (اور) سفید پاؤں والے گھوڑے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو نہیں پہچانے گا؟“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کےرسول! آپ نے فرمایا: ”وہ وضو کی بناپر روشن چہروں، سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے اور میں حوض پر ان کا پیشروہوں گا، خبردار! کچھ لوگ یقیناً میرے حوض سے پرے ہٹا ئے جائیں گے، جیسے (کہیں اور کا) بھٹکا ہوا اونٹ (جوگلے کا حصہ نہیں ہوتا) پرے ہٹا دیا جاتا ہے، میں ان کی آوازدوں گا، دیکھو! ادھر آ جاؤ۔ تو کہاجائے گا، انہوں نے آپ کے بعد (اپنے قول و عمل کو) بدل لیا تھا۔ تو میں کہوں گا: دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔“ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں پہنچے اور فرمایا: ”اے مومنوں کے گروہ! تم پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمھارے ساتھ ملنے والے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو دیکھا ہوتا۔“ صحابہ ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”تم میرے ساتھی ہو اور ہمارے بھائی، وہ لوگ ہیں جو ابھی تک دنیا میں نہیں آئے۔“ تو انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ کی امت کے وہ لوگ جو ابھی پیدا نہیں ہوئے، آپ ان کو کیسے پہچانیں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ”بتائیے! اگر کسی کے روشن چہرہ، روشن ہاتھ پاؤں والے گھوڑے (یعنی پانچ کلیان) ایسے گھوڑوں میں ہوں جو خالص سیاہ ہوں، تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو پہچان نہیں لے گا؟“ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ وضو کی بناء پر، روشن رو، روشن ہاتھ پاؤں آئیں گے، اور میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا۔ خبردار! کچھ لوگ یقیناً میرے حوض سے ہٹائے جائیں گے جیسے بھٹکا ہوا اونٹ دور ہٹایا جاتا ہے، میں ان کو آواز دوں گا: خبردار! ادھر آؤ! تو کہا جائے گا: انھوں نے آپ کے بعد اپنے آپ کو بدل لیا تھا۔ (آپ کے راستہ یا طرزِ عمل میں آمیزش کردی تھی) تو میں کہوں گا: ”دور دور ہو جاؤ!“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14008)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
اسماعیل کے بجائے) عبدالعزیز دراوردی اور مالک نے علاء سے، انہوں نے اپنےوالد عبد الرحمن سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا: ”اے ایمان والی قوم کے دیار! تم سب پر سلامتی ہو، ہم بھی اگر اللہ نےچاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔“ اس کے بعد اسماعیل بن جعفر کی روایت کی طرح ہے۔ ہاں مالک کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ” تو کچھ لوگوں کو میرے حوض سے ہٹایا جائے گا۔“ (الا، یعنی خبردار کے بجائے ف، یعنی ’تو، کا لفظ ہے۔) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کی طرف تشریف لے گئے، اور فرمایا: ”اے مومنوں کے گھروں کے باسیو! تم پر سلامتی ہو! اور جب اللہ کو منظور ہو گا، تو ہم بھی تمھارے ساتھ مل جائیں گے۔“ امام مالک کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: ”کچھ لوگوں کو میرے حوض سے ہٹایا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في الجنائز، باب: ما يقول اذا زار القبور او مربها برقم (3237) والنسائي في ((المجتبي)) 93/1 في الطهارة، باب: حلية الوضوء - انظر ((التحفة)) برقم (14086)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|