كِتَابُ الطَّلَاقِ کتاب: طلاق کے بیان میں 25. بَابُ جَامِعِ عِدَّةِ الطَّلَاقِ عدت کے بیان میں مختلف احادیث
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس عورت کو طلاق ہو، پھر ایک یا دو حیض کے بعد اس کا حیض بند ہو جائے، تو وہ نو مہینے تک انتظار کرے گی، اگر حمل معلوم ہو تو بہتر ہے، ورنہ پھر تین مہینے عدت کر کے دوسرا نکاح کرے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15441 والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم:4626، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 11095، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 19334، والشافعي فى «الاُم» برقم: 231/5، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 70»
حضرت سعید بن مسیّب کہتے تھے: طلاق مردوں کے لحاظ سے ہے اور عدت عورتوں کے لحاظ سے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، أخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15179، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4502، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1330، 1331، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12951، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18563، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 70ق»
سعید بن مسیّب نے کہا: مستحاضہ عورت کی عدت ایک برس تک ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه الدارمي فى «مسنده» برقم: 943، 948، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 19056، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 71»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ مطلقہ عورت کا اگر حیض بند ہو جائے تو وہ نو مہینے تک انتظار کرے، اگر اس وقت تک بھی حیض نہ آئے تو تین مہینے عدت کرے، اگر تین مہینے پورے ہونے سے پہلے حیض آنے لگے تو پھر عدت حیض سے شروع کرے، اگر پھر نو مہینے تک حیض نہ آئے پھر تین مہینے عدت کرے، اگر تین مہینے کے اندر پھر حیض آ جائے پھر حیض سے شروع کرے، پھر اگر نو مہینے تک حیض نہ آئے تین مہینے عدت کرے، اگر پھر ان تین مہینوں میں حیض آ جائے تو اب عدت حیضوں سے پوری ہو، اور جب حیض نہ آئے تو تین مہینے عدت کر کے دوسرا نکاح کر لے، اس تین برس کی عدت میں خاوند کو اختیار ہے رجعت کر لے مگر جب تین طلاق دے چکا ہو۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 71»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مرد اپنی عورت کو طلاق دے، جب عدت گزرنے لگے رجعت کرلے، پھر طلاق دے دے اور صحبت نہ کرے تو عورت کو نئے سرے سے عدت کرنی ہوگی۔ پہلے دنوں کا شمار نہ ہوگا، مگر خاوند گنہگار ہوگا اگر اس نے تکلیف دینے کی نیت کی ہو۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 71»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ اگر عورت مسلمان ہو جائے اور خاوند کافر ہو، پھر خاوند بھی مسلمان ہو عدت کے اندر تو وہ عورت اسی کی رہے گی، اگر عدت گزر جائے پھر عورت سے کچھ علاقہ نہ رہے گا، البتہ نکاح کر سکتا ہے پھر تین طلاق کا مالک ہوگا، کیونکہ عورت کے مسلمان ہونے سے طلاق نہیں پڑی بلکہ نکاح فسخ ہوگیا تھا۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 71»
|