وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، انه قال: " عدة المستحاضة سنة" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّهُ قَالَ: " عِدَّةُ الْمُسْتَحَاضَةِ سَنَةٌ" .
سعید بن مسیّب نے کہا: مستحاضہ عورت کی عدت ایک برس تک ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه الدارمي فى «مسنده» برقم: 943، 948، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 19056، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 71»
قال مالك: الامر عندنا في المطلقة التي ترفعها حيضتها حين يطلقها زوجها، انها تنتظر تسعة اشهر، فإن لم تحض فيهن اعتدت ثلاثة اشهر، فإن حاضت قبل ان تستكمل الاشهر الثلاثة استقبلت الحيض، فإن مرت بها تسعة اشهر قبل ان تحيض، اعتدت ثلاثة اشهر، فإن حاضت الثانية قبل ان تستكمل الاشهر الثلاثة، استقبلت الحيض، فإن مرت بها تسعة اشهر قبل ان تحيض اعتدت ثلاثة اشهر، فإن حاضت الثالثة كانت قد استكملت عدة الحيض، فإن لم تحض استقبلت ثلاثة اشهر ثم حلت، ولزوجها عليها في ذلك الرجعة قبل ان تحل، إلا ان يكون قد بت طلاقها.قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الْمُطَلَّقَةِ الَّتِي تَرْفَعُهَا حَيْضَتُهَا حِينَ يُطَلِّقُهَا زَوْجُهَا، أَنَّهَا تَنْتَظِرُ تِسْعَةَ أَشْهُرٍ، فَإِنْ لَمْ تَحِضْ فِيهِنَّ اعْتَدَّتْ ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ، فَإِنْ حَاضَتْ قَبْلَ أَنْ تَسْتَكْمِلَ الْأَشْهُرَ الثَّلَاثَةَ اسْتَقْبَلَتِ الْحَيْضَ، فَإِنْ مَرَّتْ بِهَا تِسْعَةُ أَشْهُرٍ قَبْلَ أَنْ تَحِيضَ، اعْتَدَّتْ ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ، فَإِنْ حَاضَتِ الثَّانِيَةَ قَبْلَ أَنْ تَسْتَكْمِلَ الْأَشْهُرَ الثَّلَاثَةَ، اسْتَقْبَلَتِ الْحَيْضَ، فَإِنْ مَرَّتْ بِهَا تِسْعَةُ أَشْهُرٍ قَبْلَ أَنْ تَحِيضَ اعْتَدَّتْ ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ، فَإِنْ حَاضَتِ الثَّالِثَةَ كَانَتْ قَدِ اسْتَكْمَلَتْ عِدَّةَ الْحَيْضِ، فَإِنْ لَمْ تَحِضْ اسْتَقْبَلَتْ ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ ثُمَّ حَلَّتْ، وَلِزَوْجِهَا عَلَيْهَا فِي ذَلِكَ الرَّجْعَةُ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ قَدْ بَتَّ طَلَاقَهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ مطلقہ عورت کا اگر حیض بند ہو جائے تو وہ نو مہینے تک انتظار کرے، اگر اس وقت تک بھی حیض نہ آئے تو تین مہینے عدت کرے، اگر تین مہینے پورے ہونے سے پہلے حیض آنے لگے تو پھر عدت حیض سے شروع کرے، اگر پھر نو مہینے تک حیض نہ آئے پھر تین مہینے عدت کرے، اگر تین مہینے کے اندر پھر حیض آ جائے پھر حیض سے شروع کرے، پھر اگر نو مہینے تک حیض نہ آئے تین مہینے عدت کرے، اگر پھر ان تین مہینوں میں حیض آ جائے تو اب عدت حیضوں سے پوری ہو، اور جب حیض نہ آئے تو تین مہینے عدت کر کے دوسرا نکاح کر لے، اس تین برس کی عدت میں خاوند کو اختیار ہے رجعت کر لے مگر جب تین طلاق دے چکا ہو۔
قال مالك: السنة عندنا ان الرجل إذا طلق امراته وله عليها رجعة فاعتدت بعض عدتها، ثم ارتجعها، ثم فارقها قبل ان، يمسها انها لا تبني على ما مضى من عدتها، وانها تستانف من يوم طلقها عدة مستقبلة، وقد ظلم زوجها نفسه واخطا، إن كان ارتجعها ولا حاجة له بها قَالَ مَالِكٌ: السُّنَّةُ عِنْدَنَا أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَلَهُ عَلَيْهَا رَجْعَةٌ فَاعْتَدَّتْ بَعْضَ عِدَّتِهَا، ثُمَّ ارْتَجَعَهَا، ثُمَّ فَارَقَهَا قَبْلَ أَنْ، يَمَسَّهَا أَنَّهَا لَا تَبْنِي عَلَى مَا مَضَى مِنْ عِدَّتِهَا، وَأَنَّهَا تَسْتَأْنِفُ مِنْ يَوْمَ طَلَّقَهَا عِدَّةً مُسْتَقْبَلَةً، وَقَدْ ظَلَمَ زَوْجُهَا نَفْسَهُ وَأَخْطَأَ، إِنْ كَانَ ارْتَجَعَهَا وَلَا حَاجَةَ لَهُ بِهَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مرد اپنی عورت کو طلاق دے، جب عدت گزرنے لگے رجعت کرلے، پھر طلاق دے دے اور صحبت نہ کرے تو عورت کو نئے سرے سے عدت کرنی ہوگی۔ پہلے دنوں کا شمار نہ ہوگا، مگر خاوند گنہگار ہوگا اگر اس نے تکلیف دینے کی نیت کی ہو۔
قال مالك: والامر عندنا ان المراة إذا اسلمت وزوجها كافر، ثم اسلم، فهو احق بها ما دامت في عدتها، فإن انقضت عدتها فلا سبيل له عليها، وإن تزوجها بعد انقضاء عدتها لم يعد ذلك طلاقا، وإنما فسخها منه الإسلام بغير طلاققَالَ مَالِكٌ: وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَسْلَمَتْ وَزَوْجُهَا كَافِرٌ، ثُمَّ أَسْلَمَ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا مَا دَامَتْ فِي عِدَّتِهَا، فَإِنِ انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَلَا سَبِيلَ لَهُ عَلَيْهَا، وَإِنْ تَزَوَّجَهَا بَعْدَ انْقِضَاءِ عِدَّتِهَا لَمْ يُعَدَّ ذَلِكَ طَلَاقًا، وَإِنَّمَا فَسَخَهَا مِنْهُ الْإِسْلَامُ بِغَيْرِ طَلَاقٍ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ اگر عورت مسلمان ہو جائے اور خاوند کافر ہو، پھر خاوند بھی مسلمان ہو عدت کے اندر تو وہ عورت اسی کی رہے گی، اگر عدت گزر جائے پھر عورت سے کچھ علاقہ نہ رہے گا، البتہ نکاح کر سکتا ہے پھر تین طلاق کا مالک ہوگا، کیونکہ عورت کے مسلمان ہونے سے طلاق نہیں پڑی بلکہ نکاح فسخ ہوگیا تھا۔