من كتاب الجهاد کتاب جہاد کے بارے میں 22. باب مَا يُعَدُّ مِنَ الشُّهَدَاءِ: کون شہیدوں میں شمار ہو گا؟
سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاعون (میں مرنا) شہادت ہے، غرق (ہوکر مرنا) بھی شہادت ہے، جنگ کرتے ہوئے مرنا شہادت ہے، پیٹ کی تکلیف (میں مرنا) شہادت اور نفاس والی عورتوں کی موت شہادت ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2457]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [نسائي 2053]، [أحمد 401/3، 466/6]، [ابن أبى شيبه 233/5]، [طبراني 56/8، 7328]، [نسائي فى الكبريٰ 2181] وضاحت:
(تشریح حدیث 2449) .یعنی جو شخص طاعون یا پیٹ کی بیماری کے سبب، یا پانی میں غرق ہو کر، یا عورت نفاس کی حالت میں، یا غازی جنگ کرتے ہوئے مر جائے تو ان سب کو شہادت کا درجہ ملے گا۔ بشرطیکہ اعمالِ صالحہ سے دامن بھرا ہو، شرک و بدعت سے آدمی دور ہو تو ان کی شہادت کی توقع کی جا سکتی ہے، اور ان شہیدوں کے احکام مختلف ہوں گے، درجہ شہیدوں کا ہوگا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جنگ کرنا شہادت ہے، طاعون شہادت ہے، پیٹ (کی بیماری) شہادت ہے، حاملہ عورت جنین کی وجہ سے فوت ہو جائے تو یہ شہادت ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2458]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 317/5، 323]، [كشف الاستار 1718، وله شاهد عند بخاري 2849]، [مسلم 1919، 1920]، [ابن ماجه 2803] وضاحت:
(تشریح حدیث 2450) امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: ان کے سوا اور لوگ بھی دوسری حدیثوں میں مذکور ہیں جو ذات الجنب سے مرے، جو عورت زچگی کے عارضہ میں مرے، جو مرد اپنا مال بچانے اور دفاع میں مارا جائے، اور اپنے بیوی بچوں کے دفاع کرنے میں مارا جائے۔ اور شہادت سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں ان کو ثواب شہیدوں کا سا ملے گا لیکن ان پر شہیدوں کے احکام لاگو نہ ہوں گے، ان کو غسل دیا جائے گا اور ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، صرف اللہ کی راہ میں جو لڑتے ہوئے شہید ہوا ان کو غسل نہ دیا جائے گا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|