من كتاب الجهاد کتاب جہاد کے بارے میں 14. باب في فَضْلِ الرَّمْيِ وَالأَمْرِ بِهِ: تیر اندازی کی فضیلت اور اس کا حکم
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے یہ آیتِ شریفہ تلاوت کی (ترجمہ): ”تیار کرو کافروں کے لئے جہاں تک تم سے ہو سکے قوت، سنو: قوت سے مراد ہے: تیر اندازی کرنا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2448]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1917]، [أبوداؤد 2514]، [ابن ماجه 2813]، [أبويعلی 1743]، [ابن حبان 4709]، [سعيد بن منصور 2448]، [الطيالسي 1182] وضاحت:
(تشریح حدیث 2440) یعنی دشمنوں کے مقابلے کیلئے ہمیشہ اپنی طاقت و قوت کو بڑھاتے رہو، اور ہر وقت مستعد رہو، اس سے غفلت نہ برتو کیونکہ معلوم نہیں دشمن کس وقت حملہ کر بیٹھے اور ہلاکت و ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔ اس حدیث میں فنِ سپاہ گری اور ہتھیار چلانے کی ترغیب ہے، اب تیر کے عوض بندوق، توپ اور دیگر آلاتِ حرب کی ٹریننگ ہے جس کا سیکھنا ضروری ہے تاکہ وقتِ ضرورت کام آوے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله عز و جل ایک تیر کے سبب تین آدمیوں کو جنت میں داخل کریگا، تیر بنانے والے کو اگر اس کے بنانے میں اچھی نیت کی ہوگی، اس کی مدد کرنے والے اور تیر چلانے والے کو“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیراندازی کرو، سواری کرو، اور میرے نزدیک تیر اندازی محبوب ہے سواری کرنے سے“، اور فرمایا: ”اور ہر کھیل جو آدمی کھیلتا ہے وہ باطل ہے سوائے اپنی کمان سے تیراندازی کرنے، اور گھوڑے کی تربیت کرنے، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے کے، یہ تین کھیل حق ہیں۔“ اور فرمایا: ”جس نے سیکھنے کے بعد تیراندازی چھوڑ دی اس نے ناشکری کی اس کی جس نے اسے سکھایا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2449]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2513]، [ترمذي 1627]، [نسائي 3580]، [ابن ماجه 2811]، [أحمد 144/4، 146]، [سعيد بن منصور 2450]، [طيالسي 1179]، [طحاوي فى مشكل الآثار 368/1]، [البيهقي 12/10، وغيرهم وله شواهد] وضاحت:
(تشریح حدیث 2441) اس حدیث سے تیر اندازی کی اور گھوڑ سواری کی فضیلت ثابت ہوئی، اب تیر کے بدلے بندوق و توپ اور ٹینک وغیرہ آلاتِ حرب کی ٹریننگ اورمشق ہے، اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے سفر کرنا بھی جہاد میں داخل ہے۔ یہ تین کھیل صحیح اور حق ہیں، یعنی لغو اور بیکار و باطل نہیں ہیں، تیراندازی و گھوڑے کی دیکھ بھال و تربیت میں آدمی جہاد کی تیاری کرتا ہے، اور تیسرے بیوی بچوں کے ساتھ کھیل میں الفت، محبت، انسیت اور بیوی کے حق کی ادائیگی ہے جس سے نسلِ انسانی کا قیام و بقا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
|