من كتاب الجهاد کتاب جہاد کے بارے میں 19. باب اَرواح الشہداء شہیدوں کی ارواح کا بیان
مسروق رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے شہیدوں کی ارواح کے بارے پوچھا۔ اور اگر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو ہمیں کوئی حدیث نہ بتاتا، انہوں نے کہا: شہیدوں کی ارواح اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سبز پرندوں کے قالب میں ہوں گی، جو عرش سے لٹکی ہوئی قنادیل میں بسیرا کرتی ہوں گی، اور جنت میں جہاں چاہیں چلتی پھرتی ہونگی، اور پھر اپنی قندیلوں میں لوٹ آتی ہونگی، ان کا رب (رب العالمین) ان کی طرف جھانکے گا اور پوچھے گا: ”تم کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟“ وہ روحیں کہیں گی: ہمیں اور کسی چیز کی حاجت نہیں سوائے اسکے کہ ہم دنیا میں لوٹ جائیں اور پھر دوبارہ ماری جائیں (یعنی شہید کی جائیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2454]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1887]، [ترمذي 3011]، [ابن ماجه 2801]، [طيالسي 1143]، [ابن أبى شيبه 308/5] وضاحت:
(تشریح حدیث 2446) ہر انسان روح کے سبب زندہ ہے، روح نکل جائے تو مردہ کہلاتا ہے۔ ارواح کیا چیز ہیں؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: « ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي .....﴾ [الإسراء: 85] » یعنی ”لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ انہیں بتا دیجئے کہ روح میرے رب کا حکم ہے۔ “ انسان کے جسم سے ایک بار روح نکل جائے تو پھر دنیا میں واپس نہیں آتی، ارواح کو حاضر کرنا، اور ان سے معلومات لینا، ماضی و مستقبل اور حال کے حالات معلوم کرنا، باطل اور لغو چیزیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں، اور عقیدۂ اسلام کے سراسر منافی ہیں۔ یہاں اس حدیث سے شہداء کی ارواح کے بارے میں معلوم ہوا کہ عرشِ الٰہی سے بندھی قنادیل میں ربِ کائنات کے قریب ہوں گی، اور یہ بہت بڑا شرف و اعجاز ہے شہداء کے لئے۔ اسی حدیث سے جنت کا وجود بھی ثابت ہوا اور عرشِ الٰہی کا بھی ثبوت ملا، نیز یہ کہ شہید اتنے عزت و احترام اور قربِ الٰہی کے سبب دنیا میں دوبارہ آنے اور شہید ہونے کی تمنا کرے گا۔ «(اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنَا الشَّهَادَةَ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ وَهَوِّنْ عَلَيْنَا السَّكَرَاتِ قُرْبَ الْمَمَاتِ يَا أَحْكَمَ الْحَاكِمِيْنَ)» آمین۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|