ومخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم في دية الرجلين , وما ارادوا من الغدر برسول الله صلى الله عليه وسلم، قال الزهري: عن عروة: كانت على راس ستة اشهر من وقعة بدر قبل وقعة احد , وقول الله تعالى: هو الذي اخرج الذين كفروا من اهل الكتاب من ديارهم لاول الحشر إلى قوله ان يخرجوا سورة الحشر آية 2 وجعله ابن إسحاق بعد بئر معونة واحد.وَمَخْرَجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فِي دِيَةِ الرَّجُلَيْنِ , وَمَا أَرَادُوا مِنَ الْغَدْرِ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: عَنْ عُرْوَةَ: كَانَتْ عَلَى رَأْسِ سِتَّةِ أَشْهُرٍ مِنْ وَقْعَةِ بَدْرٍ قَبْلَ وقعة أُحُدٍ , وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ لأَوَّلِ الْحَشْرِ إلى قوله أَنْ يَخْرُجُوا سورة الحشر آية 2 وَجَعَلَهُ ابْنُ إِسْحَاقَ بَعْدَ بِئْرِ مَعُونَةَ وَأُحُدٍ.
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو مسلمانوں کی دیت کے سلسلے میں ان کے پاس جانا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا دغا بازی کرنا۔ زہری نے عروہ سے بیان کیا کہ غزوہ بنو نضیر، غزوہ بدر کے چھ مہینے بعد اور غزوہ احد سے پہلے ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد «هو الذي أخرج الذين كفروا من أهل الكتاب من ديارهم لأول الحشر ما ظننتم أن يخرجوا»”اللہ ہی وہ ہے جس نے نکالا ان لوگوں کو جو کافر ہوئے اہل کتاب سے ان کے گھروں سے اور یہ (جزیرہ عرب سے) ان کی پہلی جلا وطنی ہے“ ابن اسحاق کی تحقیق میں یہ غزوہ غزوہ بئرمعونہ اور غزوہ احد کے بعد ہوا تھا۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن نصر، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" حاربت النضير وقريظة فاجلى بني النضير، واقر قريظة ومن عليهم حتى حاربت قريظة , فقتل رجالهم وقسم نساءهم واولادهم واموالهم بين المسلمين , إلا بعضهم لحقوا بالنبي صلى الله عليه وسلم فآمنهم واسلموا , واجلى يهود المدينة كلهم بني قينقاع، وهم رهط عبد الله بن سلام ويهود بني حارثة وكل يهود المدينة".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" حَارَبَتْ النَّضِيرُ وَقُرَيْظَةُ فَأَجْلَى بَنِي النَّضِيرِ، وَأَقَرَّ قُرَيْظَةَ وَمَنَّ عَلَيْهِمْ حَتَّى حَارَبَتْ قُرَيْظَةُ , فَقَتَلَ رِجَالَهُمْ وَقَسَمَ نِسَاءَهُمْ وَأَوْلَادَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ , إِلَّا بَعْضَهُمْ لَحِقُوا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَهُمْ وَأَسْلَمُوا , وَأَجْلَى يَهُودَ الْمَدِينَةِ كُلَّهُمْ بَنِي قَيْنُقَاعَ، وَهُمْ رَهْطُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ وَيَهُودَ بَنِي حَارِثَةَ وَكُلَّ يَهُودِ الْمَدِينَةِ".
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (معاہدہ توڑ کر) لڑائی مول لی۔ اس لیے آپ نے قبیلہ بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا لیکن قبیلہ بنو قریظہ کو جلا وطن نہیں کیا اور اس طرح ان پر احسان فرمایا۔ پھر بنو قریظہ نے بھی جنگ مول لی۔ اس لیے آپ نے ان کے مردوں کو قتل کروایا اور ان کی عورتوں، بچوں اور مال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ صرف بعض بنی قریظہ اس سے الگ قرار دیئے گئے تھے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آ گئے تھے۔ اس لیے آپ نے انہیں پناہ دی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے تمام یہودیوں کو جلا وطن کر دیا تھا۔ بنو قینقاع کو بھی جو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا قبیلہ تھا، یہود بنی حارثہ کو اور مدینہ کے تمام یہودیوں کو۔
Narrated Ibn `Umar: Bani An-Nadir and Bani Quraiza fought (against the Prophet violating their peace treaty), so the Prophet exiled Bani An-Nadir and allowed Bani Quraiza to remain at their places (in Medina) taking nothing from them till they fought against the Prophet again) . He then killed their men and distributed their women, children and property among the Muslims, but some of them came to the Prophet and he granted them safety, and they embraced Islam. He exiled all the Jews from Medina. They were the Jews of Bani Qainuqa', the tribe of `Abdullah bin Salam and the Jews of Bani Haritha and all the other Jews of Medina.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 362
مجھ سے حسن بن مدرک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوعوانہ نے خبر دی، انہیں ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے کہا، ”سورۃ الحشر“ تو انہوں نے کہا کہ اسے ”سورۃ نضیر“ کہو (کیونکہ یہ سورت بنو نضیر ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے) اس روایت کی متابعت ہشیم سے ابوبشر نے کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي الاسود، حدثنا معتمر، عن ابيه، سمعت انس بن مالك رضي الله عنه، قال:" كان الرجل يجعل للنبي صلى الله عليه وسلم النخلات حتى افتتح قريظة والنضير , فكان بعد ذلك يرد عليهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ الرَّجُلُ يَجْعَلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخَلَاتِ حَتَّى افْتَتَحَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرَ , فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ".
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ انصاری صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ کھجور کے درخت مخصوص رکھتے تھے (تاکہ اس کا پھل آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے) لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بنو قریظہ اور بنو نضیر پر فتح عطا فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پھل واپس فرما دیا کرتے تھے۔
Narrated Anas bin Malik: Some people used to allot some date palm trees to the Prophet as gift till he conquered Banu Quraiza and Bani An-Nadir, where upon he started returning their date palms to them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 364
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" حرق رسول الله صلى الله عليه وسلم نخل بني النضير وقطع وهي البويرة، فنزلت: ما قطعتم من لينة او تركتموها قائمة على اصولها فبإذن الله سورة الحشر آية 5".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" حَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَنَزَلَتْ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ سورة الحشر آية 5".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغات جلوا دیئے تھے اور ان کے درختوں کو کٹوا دیا تھا۔ یہ باغات مقام بویرہ میں تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله»”جو درخت تم نے کاٹ دیئے ہیں یا جنہیں تم نے چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنے جڑوں پر کھڑے رہیں تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔“
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle had the date-palm trees of Bani Al-Nadir burnt and cut down at a place called Al- Buwaira. Allah then revealed: "What you cut down of the date-palm trees (of the enemy) Or you left them standing on their stems. It was by Allah's Permission." (59.5)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 365
(مرفوع) حدثني إسحاق، اخبرنا حبان، اخبرنا جويرية بن اسماء، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما: ان النبي صلى الله عليه وسلم حرق نخل بني النضير، قال:" ولها يقول حسان بن ثابت: وهان على سراة بني لؤي حريق بالبويرة مستطير قال: فاجابه ابو سفيان بن الحارث ادام الله ذلك من صنيع وحرق في نواحيها السعير ستعلم اينا منها بنزه وتعلم اي ارضينا تضير.(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ، أَخْبَرَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، قَالَ:" وَلَهَا يَقُولُ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ: وَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ قَالَ: فَأَجَابَهُ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ أَدَامَ اللَّهُ ذَلِكَ مِنْ صَنِيعٍ وَحَرَّقَ فِي نَوَاحِيهَا السَّعِيرُ سَتَعْلَمُ أَيُّنَا مِنْهَا بِنُزْهٍ وَتَعْلَمُ أَيُّ أَرْضَيْنَا تَضِيرُ.
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان نے خبر دی، انہیں جویریہ بن اسماء نے، انہیں نافع نے، انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے باغات جلوا دیئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسی کے متعلق یہ شعر کہا تھا (ترجمہ)”بنو لوی (قریش) کے سرداروں نے بڑی آسانی کے ساتھ برداشت کر لیا۔ مقام بویرہ میں اس آگ کو جو پھیل رہی تھی۔“ بیان کیا کہ پھر اس کا جواب ابوسفیان بن حارث نے ان اشعار میں دیا۔ ”خدا کرے کہ مدینہ میں ہمیشہ یوں ہی آگ لگتی رہے اور اس کے اطراف میں یوں ہی شعلے اٹھتے رہیں۔ تمہیں جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کون اس مقام بویرہ سے دور ہے اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کی زمین کو نقصان پہنچتا ہے۔“
Narrated Ibn `Umar: The Prophet burnt the date-palm trees of Bani An-Nadir. Hassan bin Thabit said the following poetic Verses about this event:-- "the terrible burning of Al-Buwaira Has been received indifferently By the nobles of Bani Luai (The masters and nobles of Quraish)." Abu Sufyan bin Al-Harith (i.e. the Prophet's cousin who was still a disbeliever then) replied to Hassan, saying in poetic verses:-- "May Allah bless that burning And set all its (i.e. Medina's) Parts on burning fire. You will see who is far from it (i.e. Al-Buwaira) And which of our lands will be Harmed by it (i.e. the burning of Al- Buwaira).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 366
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان النصري، ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه دعاه إذ جاءه حاجبه يرفا، فقال:" هل لك في عثمان , وعبد الرحمن , والزبير , وسعد يستاذنون؟ فقال: نعم , فادخلهم فلبث قليلا ثم جاء، فقال: هل لك في عباس , وعلي يستاذنان؟ قال: نعم , فلما دخلا، قال عباس: يا امير المؤمنين اقض بيني وبين هذا , وهما يختصمان في الذي افاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم من بني النضير فاستب علي , وعباس، فقال الرهط: يا امير المؤمنين اقض بينهما وارح احدهما من الآخر، فقال عمر: اتئدوا انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث , ما تركنا صدقة" يريد بذلك نفسه، قالوا: قد قال ذلك , فاقبل عمر على عباس , وعلي، فقال: انشدكما بالله هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال ذلك؟ قالا: نعم، قال: فإني احدثكم عن هذا الامر إن الله سبحانه كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، فقال جل ذكره: وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم عليه من خيل ولا ركاب إلى قوله قدير سورة الحشر آية 6 فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم والله ما احتازها دونكم , ولا استاثرها عليكم لقد اعطاكموها وقسمها فيكم حتى بقي هذا المال منها , فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم ياخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله , فعمل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، ثم توفي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: فانا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقبضه ابو بكر فعمل فيه بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتم حينئذ , فاقبل على علي , وعباس، وقال: تذكران ان ابا بكر فيه كما تقولان , والله يعلم إنه فيه لصادق بار راشد تابع للحق، ثم توفى الله ابا بكر، فقلت: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر , فقبضته سنتين من إمارتي اعمل فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر والله يعلم اني فيه صادق بار راشد تابع للحق، ثم جئتماني كلاكما وكلمتكما واحدة وامركما جميع فجئتني , يعني عباسا، فقلت: لكما إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث ما تركنا صدقة" , فلما بدا لي ان ادفعه إليكما، قلت: إن شئتما دفعته إليكما على ان عليكما عهد الله وميثاقه , لتعملان فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر وما عملت فيه منذ وليت وإلا فلا تكلماني , فقلتما ادفعه إلينا بذلك , فدفعته إليكما افتلتمسان مني قضاء غير ذلك , فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيه بقضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة , فإن عجزتما عنه فادفعا إلي فانا اكفيكماه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَعَاهُ إِذْ جَاءَهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا، فَقَالَ:" هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ , وَالزُّبَيْرِ , وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ , فَأَدْخِلْهُمْ فَلَبِثَ قَلِيلًا ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ , وَعَلِيٍّ يَسْتَأْذِنَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ , فَلَمَّا دَخَلَا، قَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا , وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِي الَّذِي أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي النَّضِيرِ فَاسْتَبَّ عَلِيٌّ , وَعَبَّاسٌ، فَقَالَ الرَّهْطُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، فَقَالَ عُمَرُ: اتَّئِدُوا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ , مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ" يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ، قَالُوا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ , فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَبَّاسٍ , وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، فَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ إِلَى قَوْلِهِ قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6 فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ , وَلَا اسْتَأْثَرَهَا عَلَيْكُمْ لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَقَسَمَهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ مِنْهَا , فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ , فَعَمِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ، ثُمَّ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَبَضَهُ أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهِ بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ , فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ، وَقَالَ: تَذْكُرَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهِ كَمَا تَقُولَانِ , وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهِ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ , فَقَبَضْتُهُ سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي أَعْمَلُ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي فِيهِ صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي كِلَاكُمَا وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ فَجِئْتَنِي , يَعْنِي عَبَّاسًا، فَقُلْتُ: لَكُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ" , فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا، قُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ , لَتَعْمَلَانِ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَمَا عَمِلْتُ فِيهِ مُنْذُ وَلِيتُ وَإِلَّا فَلَا تُكَلِّمَانِي , فَقُلْتُمَا ادْفَعْهُ إِلَيْنَا بِذَلِكَ , فَدَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ , فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهِ بِقَضَاءٍ غَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ , فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهُ فَادْفَعَا إِلَيَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهُ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں مالک بن اوس بن حدثان نصری نے خبر دی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تھا۔ (وہ بھی امیرالمؤمنین) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیرالمؤمنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ ہاں، انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا عباس اور علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین! میرا اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کا فیصلہ کر دیجئیے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال بنو نضیر سے فئے کے طور پر دی تھی۔ اس موقع پر علی اور عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے، امیرالمؤمنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جلدی نہ کیجئے۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی جواب ہاں میں دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال فئے میں سے (جو بنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ”بنو نضیر کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ (یعنی جنگ نہیں کی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”قدیر“ تک۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فئے میں سے یہ جائیداد بچ گئی۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اٹھا لیا، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ آپ کی مراد عباس رضی اللہ عنہ سے تھی۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے کہ ”ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے، جب سے میں خلیفہ بنا ہوں۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں خود اس کا انتظام کروں گا۔
Narrated Malik bin Aus Al-Hadathan An-Nasri: That once `Umar bin Al-Khattab called him and while he was sitting with him, his gatekeeper, Yarfa came and said, "Will you admit `Uthman, `Abdur-Rahman bin `Auf, AzZubair and Sa`d (bin Abi Waqqas) who are waiting for your permission?" `Umar said, "Yes, let them come in." After a while, Yarfa- came again and said, "Will you admit `Ali and `Abbas who are asking your permission?" `Umar said, "Yes." So, when the two entered, `Abbas said, "O chief of the believers! Judge between me and this (i.e. `Ali). "Both of them had a dispute regarding the property of Bani An-Nadir which Allah had given to His Apostle as Fai (i.e. booty gained without fighting), `Ali and `Abbas started reproaching each other. The (present) people (i.e. `Uthman and his companions) said, "O chief of the believers! Give your verdict in their case and relieve each from) the other." `Umar said, "Wait I beseech you, by Allah, by Whose Permission both the heaven and the earth stand fast! Do you know that Allah's Apostle said, 'We (Prophets) our properties are not to be inherited, and whatever we leave, is to be spent in charity,' and he said it about himself?" They (i.e. `Uthman and his company) said, "He did say it. "`Umar then turned towards `Ali and `Abbas and said, "I beseech you both, by Allah! Do you know that Allah's Apostle said this?" They replied in the affirmative. He said, "Now I am talking to you about this matter. Allah the Glorified favored His Apostle with something of this Fai (i.e. booty won without fighting) which He did not give to anybody else. Allah said:-- "And what Allah gave to His Apostle ("Fai"" Booty) from them--For which you made no expedition With either Calvary or camelry. But Allah gives power to His Apostles Over whomsoever He will And Allah is able to do all things." (59.6) So this property was especially granted to Allah's Apostle . But by Allah, the Prophet neither took it all for himself only, nor deprived you of it, but he gave it to all of you and distributed it amongst you till only this remained out of it. And from this Allah's Apostle used to spend the yearly maintenance for his family, and whatever used to remain, he used to spend it where Allah's Property is spent (i.e. in charity), Allah's Apostle kept on acting like that during all his life, Then he died, and Abu Bakr said, 'I am the successor of Allah's Apostle.' So he (i.e. Abu Bakr) took charge of this property and disposed of it in the same manner as Allah's Apostle used to do, and all of you (at that time) knew all about it." Then `Umar turned towards `Ali and `Abbas and said, "You both remember that Abu Bakr disposed of it in the way you have described and Allah knows that, in that matter, he was sincere, pious, rightly guided and the follower of the right. Then Allah caused Abu Bakr to die and I said, 'I am the successor of Allah's Apostle and Abu Bakr.' So I kept this property in my possession for the first two years of my rule (i.e. Caliphate and I used to dispose of it in the same wa as Allah's Apostle and Abu Bakr used to do; and Allah knows that I have been sincere, pious, rightly guided an the follower of the right (in this matte Later on both of you (i.e. `Ali and `Abbas) came to me, and the claim of you both was one and the same, O `Abbas! You also came to me. So I told you both that Allah's Apostle said, "Our property is not inherited, but whatever we leave is to be given in charity.' Then when I thought that I should better hand over this property to you both or the condition that you will promise and pledge before Allah that you will dispose it off in the same way as Allah's Apostle and Abu Bakr did and as I have done since the beginning of my caliphate or else you should not speak to me (about it).' So, both of you said to me, 'Hand it over to us on this condition.' And on this condition I handed it over to you. Do you want me now to give a decision other than that (decision)? By Allah, with Whose Permission both the sky and the earth stand fast, I will never give any decision other than that (decision) till the Last Hour is established. But if you are unable to manage it (i.e. that property), then return it to me, and I will manage on your behalf."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 367
(مرفوع) قال: فحدثت هذا الحديث عروة بن الزبير، فقال: صدق مالك بن اوس انا سمعت عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: ارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم عثمان إلى ابي بكر يسالنه ثمنهن مما افاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم فكنت انا اردهن، فقلت لهن: الا تتقين الله , الم تعلمن ان النبي صلى الله عليه وسلم كان، يقول:" لا نورث ما تركنا صدقة" , يريد بذلك نفسه إنما ياكل آل محمد صلى الله عليه وسلم في هذا المال , فانتهى ازواج النبي صلى الله عليه وسلم إلى ما اخبرتهن , قال: فكانت هذه الصدقة بيد علي منعها علي عباسا , فغلبه عليها ثم كان بيد حسن بن علي ثم بيد حسين بن علي، ثم بيد علي بن حسين وحسن بن حسن كلاهما كانا يتداولانها، ثم بيد زيد بن حسن وهي صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم حقا".(مرفوع) قَالَ: فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: صَدَقَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ أَنَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنْتُ أَنَا أَرُدُّهُنَّ، فَقُلْتُ لَهُنَّ: أَلَا تَتَّقِينَ اللَّهَ , أَلَمْ تَعْلَمْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ، يَقُولُ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ" , يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ , فَانْتَهَى أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَا أَخْبَرَتْهُنَّ , قَالَ: فَكَانَتْ هَذِهِ الصَّدَقَةُ بِيَدِ عَلِيٍّ مَنَعَهَا عَلِيٌّ عَبَّاسًا , فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا ثُمَّ كَانَ بِيَدِ حَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ثُمَّ بِيَدِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، ثُمَّ بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ وَحَسَنِ بْنِ حَسَنٍ كِلَاهُمَا كَانَا يَتَدَاوَلَانِهَا، ثُمَّ بِيَدِ زَيْدِ بْنِ حَسَنٍ وَهِيَ صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا".
زہری نے بیان کیا کہ پھر میں نے اس حدیث کا تذکرہ عروہ بن زبیر سے کیا تو انہوں نے کہا کہ مالک بن اوس نے یہ روایت تم سے صحیح بیان کی ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے عثمان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے جو فئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی اس میں سے ان کے حصے دیئے جائیں، لیکن میں نے انہیں روکا اور ان سے کہا تم اللہ سے نہیں ڈرتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا؟ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس ارشاد میں خود اپنی ذات کی طرف تھا۔ البتہ آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس جائیداد میں سے تا زندگی (ان کی ضروریات کے لیے) ملتا رہے گا۔ جب میں نے ازواج مطہرات کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے بھی اپنا خیال بدل دیا۔ عروہ نے کہا کہ یہی وہ صدقہ ہے جس کا انتظام پہلے علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کو اس کے انتظام میں شریک نہیں کیا تھا بلکہ خود اس کا انتظام کرتے تھے (اور جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسے خرچ کیا تھا، اسی طرح انہیں مصارف میں وہ بھی خرچ کرتے تھے) اس کے بعد وہ صدقہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے انتظام میں آ گیا تھا۔ پھر حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے انتظام میں رہا۔ پھر جناب علی بن حسین اور حسن بن حسن کے انتظام میں آ گیا تھا اور یہ حق ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا۔
The sub-narrator said, "I told `Urwa bin Az-Zubair of this Hadith and he said, 'Malik bin Aus has told the truth" I heard `Aisha, the wife of the Prophet saying, 'The wives of the Prophet sent `Uthman to Abu Bakr demanding from him their 1/8 of the Fai which Allah had granted to his Apostle. But I used to oppose them and say to them: Will you not fear Allah? Don't you know that the Prophet used to say: Our property is not inherited, but whatever we leave is to be given in charity? The Prophet mentioned that regarding himself. He added: 'The family of Muhammad can take their sustenance from this property. So the wives of the Prophet stopped demanding it when I told them of that.' So, this property (of Sadaqa) was in the hands of `Ali who withheld it from `Abbas and overpowered him. Then it came in the hands of Hasan bin `Ali, then in the hands of Husain bin `Ali, and then in the hands of `Ali bin Husain and Hasan bin Hasan, and each of the last two used to manage it in turn, then it came in the hands of Zaid bin Hasan, and it was truly the Sadaqa of Allah's Apostle ."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 367
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، ان فاطمة عليها السلام والعباس، اتيا ابا بكر يلتمسان ميراثهما ارضه من فدك وسهمه من خيبر.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام وَالْعَبَّاسَ، أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا أَرْضَهُ مِنْ فَدَكٍ وَسَهْمَهُ مِنْ خَيْبَرَ.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور عباس رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زمین جو فدک میں تھی اور جو خیبر میں آپ کو حصہ ملا تھا، اس میں سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا۔
(مرفوع) فقال ابو بكر: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا نورث , ما تركنا صدقة , إنما ياكل آل محمد في هذا المال" , والله لقرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم احب إلي ان اصل من قرابتي.(مرفوع) فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا نُورَثُ , مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ , إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ" , وَاللَّهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي.
اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ البتہ آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس جائیداد میں سے خرچ ضرور ملتا رہے گا۔ اور اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کے ساتھ عمدہ معاملہ کرنا مجھے خود اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسن معاملت سے زیادہ عزیز ہے۔
Abu Bakr said, "I heard the Prophet saying, 'Our property is not inherited, and whatever we leave is to be given in charity. But the family of Muhammad can take their sustenance from this property.' By Allah, I would love to do good to the Kith and kin of Allah's Apostle rather than to my own Kith and kin."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 368