ويقال: سلام بن ابي الحقيق كان بخيبر، ويقال: في حصن له بارض الحجاز، وقال الزهري: هو بعد كعب بن الاشرف.وَيُقَالُ: سَلَّامُ بْنُ أَبِي الْحُقَيْقِ كَانَ بِخَيْبَرَ، وَيُقَالُ: فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: هُوَ بَعْدَ كَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ.
کہتے ہیں اس کا نام سلام بن ابی الحقیق تھا۔ یہ خیبر میں رہتا تھا۔ بعضوں نے کہا ایک قلعہ میں رہتا جو حجاز میں واقع تھا۔ زہری نے کہا ابورافع، کعب بن اشرف کے بعد قتل ہوا (رمضان 6 ھ میں)۔
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی زائدہ نے، انہوں نے اپنے والد زکریا بن ابی زائدہ سے، ان سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند آدمیوں کو ابورافع کے پاس بھیجا (منجملہ ان کے) عبداللہ بن عتیک رات کو اس گھر میں گھسے، وہ سو رہا تھا۔ اسے قتل کیا۔
Narrated Al-Bara bin Azib: Allah's Apostle sent a group of persons to Abu Rafi`. `Abdullah bin Atik entered his house at night, while he was sleeping, and killed him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 370
(مرفوع) حدثنا يوسف بن موسى، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء بن عازب، قال:" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابي رافع اليهودي رجالا من الانصار , فامر عليهم عبد الله بن عتيك وكان ابو رافع يؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم ويعين عليه , وكان في حصن له بارض الحجاز , فلما دنوا منه وقد غربت الشمس وراح الناس بسرحهم، فقال عبد الله لاصحابه: اجلسوا مكانكم فإني منطلق ومتلطف للبواب لعلي ان ادخل , فاقبل حتى دنا من الباب ثم تقنع بثوبه كانه يقضي حاجة وقد دخل الناس , فهتف به البواب يا عبد الله إن كنت تريد ان تدخل فادخل فإني اريد ان اغلق الباب , فدخلت فكمنت , فلما دخل الناس اغلق الباب ثم علق الاغاليق على وتد، قال: فقمت إلى الاقاليد فاخذتها , ففتحت الباب وكان ابو رافع يسمر عنده وكان في علالي له , فلما ذهب عنه اهل سمره صعدت إليه فجعلت كلما فتحت بابا اغلقت علي من داخل، قلت: إن القوم نذروا بي لم يخلصوا إلي حتى اقتله , فانتهيت إليه فإذا هو في بيت مظلم وسط عياله لا ادري اين هو من البيت، فقلت: يا ابا رافع، قال: من هذا؟ فاهويت نحو الصوت فاضربه ضربة بالسيف وانا دهش , فما اغنيت شيئا , وصاح فخرجت من البيت فامكث غير بعيد ثم دخلت إليه، فقلت: ما هذا الصوت يا ابا رافع؟ فقال: لامك الويل إن رجلا في البيت ضربني قبل بالسيف، قال: فاضربه ضربة اثخنته ولم اقتله , ثم وضعت ظبة السيف في بطنه حتى اخذ في ظهره , فعرفت اني قتلته فجعلت افتح الابواب بابا بابا حتى انتهيت إلى درجة له , فوضعت رجلي وانا ارى اني قد انتهيت إلى الارض , فوقعت في ليلة مقمرة , فانكسرت ساقي فعصبتها بعمامة , ثم انطلقت حتى جلست على الباب، فقلت: لا اخرج الليلة حتى اعلم اقتلته , فلما صاح الديك قام الناعي على السور، فقال: انعى ابا رافع تاجر اهل الحجاز فانطلقت إلى اصحابي، فقلت: النجاء فقد قتل الله ابا رافع , فانتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته، فقال:" ابسط رجلك فبسطت رجلي فمسحها فكانها لم اشتكها قط".(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ الْيَهُودِيِّ رِجَالًا مِنْ الْأَنْصَارِ , فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُعِينُ عَلَيْهِ , وَكَانَ فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ , فَلَمَّا دَنَوْا مِنْهُ وَقَدْ غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَرَاحَ النَّاسُ بِسَرْحِهِمْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لِأَصْحَابِهِ: اجْلِسُوا مَكَانَكُمْ فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ وَمُتَلَطِّفٌ لِلْبَوَّابِ لَعَلِّي أَنْ أَدْخُلَ , فَأَقْبَلَ حَتَّى دَنَا مِنَ الْبَابِ ثُمَّ تَقَنَّعَ بِثَوْبِهِ كَأَنَّهُ يَقْضِي حَاجَةً وَقَدْ دَخَلَ النَّاسُ , فَهَتَفَ بِهِ الْبَوَّابُ يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تَدْخُلَ فَادْخُلْ فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُغْلِقَ الْبَابَ , فَدَخَلْتُ فَكَمَنْتُ , فَلَمَّا دَخَلَ النَّاسُ أَغْلَقَ الْبَابَ ثُمَّ عَلَّقَ الْأَغَالِيقَ عَلَى وَتَدٍ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَى الْأَقَالِيدِ فَأَخَذْتُهَا , فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُسْمَرُ عِنْدَهُ وَكَانَ فِي عَلَالِيَّ لَهُ , فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْهُ أَهْلُ سَمَرِهِ صَعِدْتُ إِلَيْهِ فَجَعَلْتُ كُلَّمَا فَتَحْتُ بَابًا أَغْلَقْتُ عَلَيَّ مِنْ دَاخِلٍ، قُلْتُ: إِنِ الْقَوْمُ نَذِرُوا بِي لَمْ يَخْلُصُوا إِلَيَّ حَتَّى أَقْتُلَهُ , فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ فِي بَيْتٍ مُظْلِمٍ وَسْطَ عِيَالِهِ لَا أَدْرِي أَيْنَ هُوَ مِنَ الْبَيْتِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا رَافِعٍ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَأَهْوَيْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً بِالسَّيْفِ وَأَنَا دَهِشٌ , فَمَا أَغْنَيْتُ شَيْئًا , وَصَاحَ فَخَرَجْتُ مِنَ الْبَيْتِ فَأَمْكُثُ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا الصَّوْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ؟ فَقَالَ: لِأُمِّكَ الْوَيْلُ إِنَّ رَجُلًا فِي الْبَيْتِ ضَرَبَنِي قَبْلُ بِالسَّيْفِ، قَالَ: فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً أَثْخَنَتْهُ وَلَمْ أَقْتُلْهُ , ثُمَّ وَضَعْتُ ظِبَةَ السَّيْفِ فِي بَطْنِهِ حَتَّى أَخَذَ فِي ظَهْرِهِ , فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الْأَبْوَابَ بَابًا بَابًا حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى دَرَجَةٍ لَهُ , فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَأَنَا أُرَى أَنِّي قَدِ انْتَهَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ , فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ , فَانْكَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ , ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى جَلَسْتُ عَلَى الْبَابِ، فَقُلْتُ: لَا أَخْرُجُ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَعْلَمَ أَقَتَلْتُهُ , فَلَمَّا صَاحَ الدِّيكُ قَامَ النَّاعِي عَلَى السُّورِ، فَقَالَ: أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ تَاجِرَ أَهْلِ الْحِجَازِ فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِي، فَقُلْتُ: النَّجَاءَ فَقَدْ قَتَلَ اللَّهُ أَبَا رَافِعٍ , فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ:" ابْسُطْ رِجْلَكَ فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا فَكَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطُّ".
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع یہودی (کے قتل) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا۔ یہ ابورافع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا۔ جب اس کے قلعہ کے قریب یہ پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ اور لوگ اپنے مویشی لے کر (اپنے گھروں کو) واپس ہو چکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو میں (اس قلعہ پر) جا رہا ہوں اور دربان پر کوئی تدبیر کروں گا۔ تاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہو جاؤں۔ چنانچہ وہ (قلعہ کے پاس) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہو۔ قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہو چکے تھے۔ دربان نے آواز دی، اے اللہ کے بندے! اگر اندر آنا ہے تو جلد آ جا، میں اب دروازہ بند کر دوں گا۔ (عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے کہا) چنانچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی کارروائی دیکھنے لگا۔ جب سب لوگ اندر آ گئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اب میں ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور میں نے انہیں لے لیا، پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا۔ ابورافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جا رہی تھیں اور وہ اپنے خاص بالاخانے میں تھا۔ جب داستان گو اس کے یہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کمرے کی طرف چڑھنے لگا۔ اس عرصہ میں، میں جتنے دروازے اس تک پہنچنے کے لیے کھولتا تھا انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہو جائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کر لوں۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ (سو رہا) تھا مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی، یا ابا رافع؟ وہ بولا کون ہے؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کر سکا۔ وہ چیخا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا۔ پھر دوبارہ اندر گیا اور میں نے آواز بدل کر پوچھا، ابورافع! یہ آواز کیسی تھی؟ وہ بولا تیری ماں غارت ہو۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر (آواز کی طرف بڑھ کر) میں نے تلوار کی ایک ضرب اور لگائی۔ انہوں نے بیان کیا کہ اگرچہ میں اسے زخمی تو بہت کر چکا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ مجھے اب یقین ہو گیا کہ میں اسے قتل کر چکا ہوں۔ چنانچہ میں نے دروازے ایک ایک کر کے کھولنے شروع کئے۔ آخر میں ایک زینے پر پہنچا۔ میں یہ سمجھا کہ زمین تک میں پہنچ چکا ہوں (لیکن ابھی میں پہنچا نہ تھا) اس لیے میں نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور نیچے گر پڑا۔ چاندنی رات تھی۔ اس طرح گر پڑنے سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اسے اپنے عمامہ سے باندھ لیا اور آ کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ معلوم کر لوں کہ آیا میں اسے قتل کر چکا ہوں یا نہیں؟ جب مرغ نے آواز دی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے کھڑے ہو کر پکارا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابورافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ چلنے کی جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ابورافع کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی اطلاع دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا اور پاؤں اتنا اچھا ہو گیا جیسے کبھی اس میں مجھ کو کوئی تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔
Narrated Al-Bara bin Azib: Allah's Apostle sent some men from the Ansar to ((kill) Abu Rafi`, the Jew, and appointed `Abdullah bin Atik as their leader. Abu Rafi` used to hurt Allah's Apostle and help his enemies against him. He lived in his castle in the land of Hijaz. When those men approached (the castle) after the sun had set and the people had brought back their livestock to their homes. `Abdullah (bin Atik) said to his companions, "Sit down at your places. I am going, and I will try to play a trick on the gate-keeper so that I may enter (the castle)." So `Abdullah proceeded towards the castle, and when he approached the gate, he covered himself with his clothes, pretending to answer the call of nature. The people had gone in, and the gate-keeper (considered `Abdullah as one of the castle's servants) addressing him saying, "O Allah's Servant! Enter if you wish, for I want to close the gate." `Abdullah added in his story, "So I went in (the castle) and hid myself. When the people got inside, the gate-keeper closed the gate and hung the keys on a fixed wooden peg. I got up and took the keys and opened the gate. Some people were staying late at night with Abu Rafi` for a pleasant night chat in a room of his. When his companions of nightly entertainment went away, I ascended to him, and whenever I opened a door, I closed it from inside. I said to myself, 'Should these people discover my presence, they will not be able to catch me till I have killed him.' So I reached him and found him sleeping in a dark house amidst his family, I could not recognize his location in the house. So I shouted, 'O Abu Rafi`!' Abu Rafi` said, 'Who is it?' I proceeded towards the source of the voice and hit him with the sword, and because of my perplexity, I could not kill him. He cried loudly, and I came out of the house and waited for a while, and then went to him again and said, 'What is this voice, O Abu Rafi`?' He said, 'Woe to your mother! A man in my house has hit me with a sword! I again hit him severely but I did not kill him. Then I drove the point of the sword into his belly (and pressed it through) till it touched his back, and I realized that I have killed him. I then opened the doors one by one till I reached the staircase, and thinking that I had reached the ground, I stepped out and fell down and got my leg broken in a moonlit night. I tied my leg with a turban and proceeded on till I sat at the gate, and said, 'I will not go out tonight till I know that I have killed him.' So, when (early in the morning) the cock crowed, the announcer of the casualty stood on the wall saying, 'I announce the death of Abu Rafi`, the merchant of Hijaz. Thereupon I went to my companions and said, 'Let us save ourselves, for Allah has killed Abu Rafi`,' So I (along with my companions proceeded and) went to the Prophet and described the whole story to him. "He said, 'Stretch out your (broken) leg. I stretched it out and he rubbed it and it became All right as if I had never had any ailment whatsoever."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 371
(مرفوع) حدثنا احمد بن عثمان، حدثنا شريح هو ابن مسلمة، حدثنا إبراهيم بن يوسف، عن ابيه، عن ابي إسحاق، قال: سمعت البراء بن عازب رضي الله عنه، قال:" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابي رافع عبد الله بن عتيك وعبد الله بن عتبة في ناس معهم , فانطلقوا حتى دنوا من الحصن، فقال: لهم عبد الله بن عتيك امكثوا انتم حتى انطلق انا فانظر، قال: فتلطفت ان ادخل الحصن ففقدوا حمارا لهم، قال: فخرجوا بقبس يطلبونه، قال: فخشيت ان اعرف، قال: فغطيت راسي وجلست كاني اقضي حاجة، ثم نادى صاحب الباب من اراد ان يدخل فليدخل قبل ان اغلقه فدخلت، ثم اختبات في مربط حمار عند باب الحصن , فتعشوا عند ابي رافع وتحدثوا حتى ذهبت ساعة من الليل، ثم رجعوا إلى بيوتهم , فلما هدات الاصوات ولا اسمع حركة خرجت، قال: ورايت صاحب الباب حيث وضع مفتاح الحصن في كوة , فاخذته ففتحت به باب الحصن، قال: قلت: إن نذر بي القوم انطلقت على مهل , ثم عمدت إلى ابواب بيوتهم فغلقتها عليهم من ظاهر، ثم صعدت إلى ابي رافع في سلم فإذا البيت مظلم قد طفئ سراجه فلم ادر اين الرجل فقلت: يا ابا رافع، قال: من هذا؟ قال: فعمدت نحو الصوت فاضربه وصاح فلم تغن شيئا، قال: ثم جئت كاني اغيثه، فقلت: ما لك يا ابا رافع وغيرت صوتي؟ فقال: الا اعجبك لامك الويل دخل علي رجل فضربني بالسيف، قال: فعمدت له ايضا , فاضربه اخرى فلم تغن شيئا فصاح وقام اهله، قال: ثم جئت وغيرت صوتي كهيئة المغيث فإذا هو مستلق على ظهره فاضع السيف في بطنه، ثم انكفئ عليه حتى سمعت صوت العظم، ثم خرجت دهشا حتى اتيت السلم اريد ان انزل فاسقط منه , فانخلعت رجلي فعصبتها، ثم اتيت اصحابي احجل، فقلت: انطلقوا فبشروا رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني لا ابرح حتى اسمع الناعية , فلما كان في وجه الصبح صعد الناعية، فقال: انعى ابا رافع، قال: فقمت امشي ما بي قلبة , فادركت اصحابي قبل ان ياتوا النبي صلى الله عليه وسلم فبشرته".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحٌ هُوَ ابْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ فِي نَاسٍ مَعَهُمْ , فَانْطَلَقُوا حَتَّى دَنَوْا مِنَ الْحِصْنِ، فَقَالَ: لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيكٍ امْكُثُوا أَنْتُمْ حَتَّى أَنْطَلِقَ أَنَا فَأَنْظُرَ، قَالَ: فَتَلَطَّفْتُ أَنْ أَدْخُلَ الْحِصْنَ فَفَقَدُوا حِمَارًا لَهُمْ، قَالَ: فَخَرَجُوا بِقَبَسٍ يَطْلُبُونَهُ، قَالَ: فَخَشِيتُ أَنْ أُعْرَفَ، قَالَ: فَغَطَّيْتُ رَأْسِي وَجَلَسْتُ كَأَنِّي أَقْضِي حَاجَةً، ثُمَّ نَادَى صَاحِبُ الْبَابِ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ فَلْيَدْخُلْ قَبْلَ أَنْ أُغْلِقَهُ فَدَخَلْتُ، ثُمَّ اخْتَبَأْتُ فِي مَرْبِطِ حِمَارٍ عِنْدَ بَابِ الْحِصْنِ , فَتَعَشَّوْا عِنْدَ أَبِي رَافِعٍ وَتَحَدَّثُوا حَتَّى ذَهَبَتْ سَاعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى بُيُوتِهِمْ , فَلَمَّا هَدَأَتِ الْأَصْوَاتُ وَلَا أَسْمَعُ حَرَكَةً خَرَجْتُ، قَالَ: وَرَأَيْتُ صَاحِبَ الْبَابِ حَيْثُ وَضَعَ مِفْتَاحَ الْحِصْنِ فِي كَوَّةٍ , فَأَخَذْتُهُ فَفَتَحْتُ بِهِ بَابَ الْحِصْنِ، قَالَ: قُلْتُ: إِنْ نَذِرَ بِي الْقَوْمُ انْطَلَقْتُ عَلَى مَهَلٍ , ثُمَّ عَمَدْتُ إِلَى أَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ فَغَلَّقْتُهَا عَلَيْهِمْ مِنْ ظَاهِرٍ، ثُمَّ صَعِدْتُ إِلَى أَبِي رَافِعٍ فِي سُلَّمٍ فَإِذَا الْبَيْتُ مُظْلِمٌ قَدْ طَفِئَ سِرَاجُهُ فَلَمْ أَدْرِ أَيْنَ الرَّجُلُ فَقُلْتُ: يَا أَبَا رَافِعٍ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: فَعَمَدْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ وَصَاحَ فَلَمْ تُغْنِ شَيْئًا، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ كَأَنِّي أُغِيثُهُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا أَبَا رَافِعٍ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي؟ فَقَالَ: أَلَا أُعْجِبُكَ لِأُمِّكَ الْوَيْلُ دَخَلَ عَلَيَّ رَجُلٌ فَضَرَبَنِي بِالسَّيْفِ، قَالَ: فَعَمَدْتُ لَهُ أَيْضًا , فَأَضْرِبُهُ أُخْرَى فَلَمْ تُغْنِ شَيْئًا فَصَاحَ وَقَامَ أَهْلُهُ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي كَهَيْئَةِ الْمُغِيثِ فَإِذَا هُوَ مُسْتَلْقٍ عَلَى ظَهْرِهِ فَأَضَعُ السَّيْفَ فِي بَطْنِهِ، ثُمَّ أَنْكَفِئُ عَلَيْهِ حَتَّى سَمِعْتُ صَوْتَ الْعَظْمِ، ثُمَّ خَرَجْتُ دَهِشًا حَتَّى أَتَيْتُ السُّلَّمَ أُرِيدُ أَنْ أَنْزِلَ فَأَسْقُطُ مِنْهُ , فَانْخَلَعَتْ رِجْلِي فَعَصَبْتُهَا، ثُمَّ أَتَيْتُ أَصْحَابِي أَحْجُلُ، فَقُلْتُ: انْطَلِقُوا فَبَشِّرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَسْمَعَ النَّاعِيَةَ , فَلَمَّا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ صَعِدَ النَّاعِيَةُ، فَقَالَ: أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ، قَالَ: فَقُمْتُ أَمْشِي مَا بِي قَلَبَةٌ , فَأَدْرَكْتُ أَصْحَابِي قَبْلَ أَنْ يَأْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَشَّرْتُهُ".
ہم سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، ہم سے شریح ابن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عتیک اور عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہما کو چند صحابہ کے ساتھ ابورافع (کے قتل) کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ روانہ ہوئے جب اس کے قلعہ کے نزدیک پہنچے تو عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہر جاؤ پہلے میں جاتا ہوں، دیکھوں صورت حال کیا ہے۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (قلعہ کے قریب پہنچ کر) میں اندر جانے کے لیے تدابیر کرنے لگا۔ اتفاق سے قلعہ کا ایک گدھا گم تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس گدھے کو تلاش کرنے کے لیے قلعہ والے روشنی لے کر باہر نکلے۔ بیان کیا کہ میں ڈرا کہ کہیں مجھے کوئی پہچان نہ لے۔ اس لیے میں نے اپنا سر ڈھک لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہے۔ اس کے بعد دربان نے آواز دی کہ اس سے پہلے کہ میں دروازہ بند کر لوں جسے قلعہ کے اندر داخل ہونا ہے وہ جلدی آ جائے۔ میں (نے موقع غنیمت سمجھا اور) اندر داخل ہو گیا اور قلعہ کے دروازے کے پاس ہی جہاں گدھے باندھے جاتے تھے وہیں چھپ گیا۔ قلعہ والوں نے ابورافع کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اسے قصے سناتے رہے۔ آخر کچھ رات گئے وہ سب قلعہ کے اندر ہی اپنے اپنے گھروں میں واپس آ گئے۔ اب سناٹا چھا چکا تھا اور کہیں کوئی حرکت نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے میں اس طویلہ سے باہر نکلا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ دربان نے کنجی ایک طاق میں رکھی ہے۔ میں نے پہلے کنجی اپنے قبضہ میں لے لی اور پھر سب سے پہلے قلعہ کا دروازہ کھولا۔ بیان کیا کہ میں نے یہ سوچا تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرا علم ہو گیا تو میں بڑی آسانی کے ساتھ بھاگ سکوں گا۔ اس کے بعد میں نے ان کے کمروں کے دروازے کھولنے شروع کئے اور انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ اب میں زینوں سے ابورافع کے بالاخانوں تک پہنچ چکا تھا۔ اس کے کمرہ میں اندھیرا تھا۔ اس کا چراغ گل کر دیا گیا تھا۔ میں یہ نہیں اندازہ کر پایا تھا کہ ابورافع کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی۔ اے ابورافع! اس پر وہ بولا کہ کون ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آواز کی طرف میں بڑھا اور میں نے تلوار سے اس پر حملہ کیا۔ وہ چلانے لگا لیکن یہ وار اوچھا پڑا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر دوبارہ میں اس کے قریب پہنچا، گویا میں اس کی مدد کو آیا ہوں۔ میں نے آواز بدل کر پوچھا۔ ابورافع کیا بات پیش آئی ہے؟ اس نے کہا تیری ماں غارت ہو، ابھی کوئی شخص میرے کمرے میں آ گیا اور اس نے تلوار سے مجھ پر حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس مرتبہ پھر میں نے اس کی آواز کی طرف بڑھ کر دوبارہ حملہ کیا۔ اس حملہ میں بھی وہ قتل، نہ ہو سکا۔ پھر وہ چلانے لگا اور اس کی بیوی بھی اٹھ گئی (اور چلانے لگی)۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بظاہر مددگار بن کر پہنچا اور میں نے اپنی آواز بدل لی۔ اس وقت وہ چت لیٹا ہوا تھا۔ میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے اسے دبایا۔ آخر جب میں نے ہڈی ٹوٹنے کی آواز سن لی تو میں وہاں سے نکلا، بہت گھبرایا ہوا۔ اب زینہ پر آ چکا تھا۔ میں اترنا چاہتا تھا کہ نیچے گر پڑا۔ جس سے میرا پاؤں ٹوٹ گیا۔ میں نے اس پر پٹی باندھی اور لنگڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم لوگ جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سناؤ۔ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک کہ اس کی موت کا اعلان نہ سن لوں۔ چنانچہ صبح کے وقت موت کا اعلان کرنے والا (قلعہ کی فصیل پر) چڑھا اور اس نے اعلان کیا کہ ابورافع کی موت واقع ہو گئی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں چلنے کے لیے اٹھا، مجھے (کامیابی کی خوشخبری میں) کوئی تکلیف معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس سے پہلے کہ میرے ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں، میں نے اپنے ساتھیوں کو پا لیا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سنائی۔
Narrated Al-Bara: Allah's Apostle sent `Abdullah bin 'Atik and `Abdullah bin `Utba with a group of men to Abu Rafi` (to kill him). They proceeded till they approached his castle, whereupon `Abdullah bin Atik said to them, "Wait (here), and in the meantime I will go and see." `Abdullah said later on, "I played a trick in order to enter the castle. By chance, they lost a donkey of theirs and came out carrying a flaming light to search for it. I was afraid that they would recognize me, so I covered my head and legs and pretended to answer the call to nature. The gatekeeper called, 'Whoever wants to come in, should come in before I close the gate.' So I went in and hid myself in a stall of a donkey near the gate of the castle. They took their supper with Abu Rafi` and had a chat till late at night. Then they went back to their homes. When the voices vanished and I no longer detected any movement, I came out. I had seen where the gate-keeper had kept the key of the castle in a hole in the wall. I took it and unlocked the gate of the castle, saying to myself, 'If these people should notice me, I will run away easily.' Then I locked all the doors of their houses from outside while they were inside, and ascended to Abu Rafi` by a staircase. I saw the house in complete darkness with its light off, and I could not know where the man was. So I called, 'O Abu Rafi`!' He replied, 'Who is it?' I proceeded towards the voice and hit him. He cried loudly but my blow was futile. Then I came to him, pretending to help him, saying with a different tone of my voice, ' What is wrong with you, O Abu Rafi`?' He said, 'Are you not surprised? Woe on your mother! A man has come to me and hit me with a sword!' So again I aimed at him and hit him, but the blow proved futile again, and on that Abu Rafi` cried loudly and his wife got up. I came again and changed my voice as if I were a helper, and found Abu Rafi` lying straight on his back, so I drove the sword into his belly and bent on it till I heard the sound of a bone break. Then I came out, filled with astonishment and went to the staircase to descend, but I fell down from it and got my leg dislocated. I bandaged it and went to my companions limping. I said (to them), 'Go and tell Allah's Apostle of this good news, but I will not leave (this place) till I hear the news of his (i.e. Abu Rafi`'s) death.' When dawn broke, an announcer of death got over the wall and announced, 'I convey to you the news of Abu Rafi`'s death.' I got up and proceeded without feeling any pain till I caught up with my companions before they reached the Prophet to whom I conveyed the good news."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 372