Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
14. بَابُ حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ:
باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4036
فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا نُورَثُ , مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ , إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ" , وَاللَّهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي.
اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ البتہ آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس جائیداد میں سے خرچ ضرور ملتا رہے گا۔ اور اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کے ساتھ عمدہ معاملہ کرنا مجھے خود اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسن معاملت سے زیادہ عزیز ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4036 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4036  
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق اکبر ؓ نے ایک طرف فرمان رسول اللہ ﷺ کا احترام باقی رکھا تو دوسری طرف حضرات اہل بیت کے بارے میں صاف فرما دیا کہ ان کا احترام ان کی خدمت ان کے ساتھ حسن برتاؤ مجھ کو خود اپنے عزیزوں کے ساتھ حسن برتاؤ سے زیادہ عزیز ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کی دل جوئی کرنا ان کا اہم ترین مقصد تھا اور تاحیات آپ نے اس کو عملی جامہ پہنایا اور اس حال میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اللہ تعالی سب کو قیامت کے دن فردوس بریں میں جمع کرے گا اور سب ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ﴾ (الأعراف: 43)
کے مصداق ہوں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4036   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4036  
حدیث حاشیہ:

ان تمام احادیث میں اموال بنونضیر کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بطور فے عطا فرمائے تھے، اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں ذکر فرمایا ہے۔

دراصل بنونضیرنے رسول اللہ ﷺ کو ایک گھناؤنی سازش کے تحت مارڈالنے کا منصوبہ بنایاتھا۔
آپ ایک کام کے لیے ان کے پاس گئے اور دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ ان میں سے ایک شخص نے کہا:
کون ہے جو چھت پر چڑھ کر اوپر سے چکی کا پاٹ گرائے اور آپ کو کچل دے؟ ایک بدبخت یہودی عمرو بن جحاش بولا:
میں یہ کام کروں گا، لیکن رسول اللہ ﷺ کو بروقت اطلاع ہوگئی۔
آپ وہاں سے واپس آگئے اور آتے ہی انھیں پیغام بھیج دیا کہ تم دس دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جاؤ۔
جو سامان تم اپنے ساتھ لے جاسکتے ہو تمھیں اس کی اجازت ہے۔
دس دن کے بعد جوشخص نظر آیا قتل کردیا جائے گا۔
آپ کے اس پیغام سے وہ اس قدر دہشت زدہ ہوئے کہ اپنا گھر بارچھوڑ کر وہاں سے نکل جانے کی تیاریاں کرنے لگے اور اپنے مکانوں کی چھتیں اکھاڑ اکھاڑ کر ان کی لکڑیاں اپنے اونٹوں پر لادنے لگے۔
وہ خود ہی اپنے گھروں کو مسمار کررہے تھے اور مسلمان بھی اپنی ضروریات کے مطابق ان کے گھروں کو مسمار کررہے تھے۔
قرآن کریم میں ہے:
وہ یقین کر بیٹھے تھے کہ ان کے قلعے انھیں اللہ کے عذاب سے بچالیں گے مگر اللہ نے انھیں ایسے رخ سے آلیا جس کا انھیں وہم خیال بھی نہ تھا۔
اور ان کے دلوں میں ایسارعب ڈال دیا کہ وہ خود ہی اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے اور مسلمانوں کے ہاتھوں بھی کروانے لگے، اہل بصیرت! عبرت حاصل کرو۔
(الحشر: 2)
ان کے سردار حی بن اخطب اور سلام بن ابی الحقیق نے مدینے سے نکل کر خیبر کا رخ کیا اور کچھ شام کی طرف چلے گئے۔
بہرحال یہود بنونضیر کا ذکر مقصود ہے۔

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اموال تین طرح کے تھے۔
۔
جو آپ کو ہبہ کیے گئے تھے۔
۔
اموال بنو نضیر جو ان کے جلاوطن ہونے کے بعد آپ کو ان کا حقدار بنایا گیا تھا۔
۔
خیبر اورفدک وغیرہ سے بطور خمس آپ کو ملاتھا۔
یہ سب آپ کی ملکیت تھے اور آپ ان سے اہل وعیال کے اخراجات پورے کرتے اور مسلمانوں کی ضرورتوں پر خرچ کرتےتھے۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ان کی ملکیت ختم ہوگئی اور وہ تمام اموال صدقہ قرارپائے جیسا کہ ان احادیث میں ان کا ذکر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4036   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 326  
´حکمرانوں کو بیت المال اور امور حکومت میں بے حد احتیاط کرنی چاہئے`
«. . . انها قالت: إن ازواج النبى صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم اردن ان يبعثن عثمان بن عفان إلى ابى بكر الصديق فيسالنه ميراثهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت لهن عائشة: اليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نورث، ما تركنا فهو صدقة . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یہ ارادہ کیا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت میں سے اپنا حصہ مانگیں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ا ن سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 326]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6730، ومسلم 1758/51، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ یہ حدیث ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار 100، لقط اللآلي 26، اونظم المتناثر 272]
➋ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک صحیح حدیث کا علم سارے علماء کو ضرور بالضرور ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ بعض علماء کو علم کے باوجود وہ حدیث یا دلیل اس وقت یاد نہ ہو پھر جب اس کی ضرورت پڑے یا کسی کے یاد دلانے سے یاد آ جائے۔
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا: میرے علم کے مطابق میرے پاس صرف یہی مال ہے، ۱ دودھ دینے والی اونٹنی، ۲ تلواریں پالش کرنے والا غلام۔ جب میں فوت ہو جاؤں تو یہ (دونوں) عمر کے حوالے کر دینا۔ جب یہ چیزیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے کی گئیں تو انہوں نے فرمایا: ابوبکر پر اللہ رحم کرے، انہوں نے بعد والوں کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ [طبقات ابن سعد 192/3، وسنده صحيح]
● معلوم ہوا کہ حکمرانوں کو بیت المال اور امور حکومت میں بےحد احتیاط کرنی چاہئے تاکہ موت کے بعد ہونے والے مواخذے سے بچ جائیں۔ ہر آدمی کو روز محشر اس کا نامہ اعمال تھما دیا جائے گا جس میں ہر چھوٹا بڑا عمل تفصیل سے درج ہو گا۔
➍ شیعہ اسماء الرجال کی رو سے ایک روایت میں آیا ہے کہ ابوعبدالله (جعفر بن محمد الصادق) رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
«وإن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر.» اور بےشک انبیاء کے وارث علماء ہیں، بےشک نبیوں کی وراثت درہم اور دینار نہیں ہوتی لیکن وہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، جس نے اسے لے لیا تو اس نے بڑاحصہ لے لیا۔ [الاصول من الكافي للكليني ج 34 باب ثواب العالم والمتعلم ح 1، وسنده صحيح عندالشيعة]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 44   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4146  
´باب:`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی بھیجا وہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں سے اپنا حصہ اور خیبر کے خمس (پانچویں حصے) میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب قسم الفىء/حدیث: 4146]
اردو حاشہ:
(1) پیچھے گزر چکا ہے کہ اہل بیت خمس کو اپنا حق سمجھتے تھے جبکہ دیگر صحابہ کے نزدیک خمس بیت المال کی ملکیت ہوتا ہے، البتہ اس میں سے اہل بیت کے محتاج لوگوں سے تعاون کیا جائے گا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خیال کے مطابق خیبر کے خمس، بنو نضیر کی زمینوں، فدک کی زمین اور صدقۃ النبی ﷺ سے وراثت طلب کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وضاحت فرمائی کہ یہ زمینیں آپ کی ذاتی نہیں بلکہ بیت المال کی ملکیت تھیں، لہٰذا ان میں وراثت جاری نہیں ہو گی۔
(2) نبیﷺ کے صدقہ سے یہ زمین بعد میں اس نام سے مشہور ہوئی ورنہ اگر اسی وقت یہ صدقہ کے نام سے معروف تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سے وراثت طلب نہ فرماتیں۔ بعض دیگر روایات میں آتا ہے کہ یہ زمین ایک یہودی شخص (مخیریق) نے بطور وصیت آپ کے لیے ہبہ کی تھی۔
(3) وراثت نہیں چلتی کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی جائیداد نہیں بنائی، نہ غنیمت سے حصہ لیا بلکہ آپ غنیمت سے خمس وصول فرماتے تھے جس سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے بعد وہ مسملانوں کے مصالح میں صرف ہوتا تھا۔ گویا آپ نے خمس سے صرف ضروریات پوری کی تھیں، اسے اپنی ملکیت نہیں بنایا تھا بلکہ وہ دراصل بیت المال ہی کی ملکیت تھا۔ آپ کا یہ طرز عمل، اس لیے تھا کہ کوئی نابکار منافق یا کافر یہ نہ کہہ سکے کہ آپ نے دعوائے نبوت صرف مال جمع کرنے کے لیے کیا ہے۔ جب آپ نے اپنی زندگی میں کوئی جائیداد ہی نہیں بنائی بلکہ جو کچھ آتا تھا، وہ بیت المال میں جمع فرماتے تھے، صرف اپنے ضروی اخراجات وصول فرماتے تھے تو پھر وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خاتون ہونے کی وجہ سے اس حقیقت سے واقف نہ تھیں۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی آخری دور میں مدینہ منورہ تشریف لائے تھے، لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں اگر ان حضرات کو یہ بات معلوم نہ ہو سکی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جو کہ راز دار نبوت تھے، اس حقیقت سے مطلع تھے۔ یہ حدیث (ہمارے متروکہ مال میں وراثت نہیں چلتی) حضرت ابوبکر کے علاوہ بعض دیگر صحابہ سے بھی مروی ہے۔ سب سے بڑی دلیل رسول اللہ ﷺ کا اپنی زندگی میں طرز عمل تھا کہ آپ نے نہ کبھی غنیمت میں اپنا حصہ لیا، نہ خمس کو اپنا ذاتی مال سمجھا۔ صرف ضرورت کے لیے استعمال فرمایا۔ وراثت تو اس مال میں ہوتی ہے جو مملوکہ ہو۔ جب یہ مال (زمینیں وغیرہ) آپ کی ملکیت ہی نہیں تھا تو وراثت کیسے جاری ہوتی؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4146   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2968  
´مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2968]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔
اور کوئی حکمران کسی کی خاطر بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام تبدیل نہیں کرسکتا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ سن کر مکمل طور پر مطمئین ہوگئے۔
ان کی طرف سے عدم اطمینان کا گمان بھی ان کی شان میں گستاخی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد جب ان اموال کا انتظام حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعد ان کی اولاد کو تفویض ہوا تو انہوں نے بھی بعینہ اسی طرح اس کا انتظام اور خرچ کیا۔
جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ عرصہ تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2968   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4580  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام بھیجا، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے اپنا حصہ مانگا، جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مدینہ اور فدک میں لوٹایا تھا اور خیبر کے خمس سے جو بچا تھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4580]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ارسلت الي ابي بكر:
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا اور پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ دونوں خود ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے،
اور اپنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متروکہ اموال میں سے جو مندرجہ ذیل ہیں میں حصہ طلب کیا۔
(1)
اموال مدینہ:
بنو نضیر کے باغات،
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فئی میں حاصل ہوئے تھے،
آپ نے ان کا اکثر حصہ مہاجروں میں تقسیم کر دیا،
اور انصار نے جو مال مہاجروں کو دئیے تھے،
وہ ان کو واپس کر دئیے گئے اور بنو نضیر کے باغات سے دو ضرورت مند انصاریوں کو بھی حصہ دیا گیا اور باقی حصہ فئی کے مال کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہا۔
(2)
فدك:
یہ مدینہ سے تین مراحل اور خیبر سے دو دن کے فاصلہ پر ایک علاقہ تھا،
وہاں یہودی آباد تھے،
جب خیبر فتح ہو گیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیش کش کی کہ انہیں کچھ نہ کہا جائے اور وہ یہ علاقہ خالی کرنے کے لیے تیار ہیں تو آپ نے اہل خیبر کے معاملہ کے مطابق،
فدک کی نصف پیداوار دینے پر،
ان کی مصالحت کی پیش کش قبول کر لی،
اس طرح چونکہ مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے،
اس لیے یہ مال فئی ٹھہرا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف و اختیار میں آ گیا۔
(3)
خمس خیبر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین اس شرط پر یہود کے پاس رہنے دی کہ ساری کھیتی اور تمام پھلوں کی پیداوار کا آدھا حصہ یہود کو دیا جائے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب تک مرضی ہو گی،
آپ یہود کو اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے،
پھر خیبر کی تقسیم اس طرح کی گئی کہ اسے چھتیس (36)
حصوں میں تقسیم کیا گیا،
ہر حصہ ایک سو حصہ پر مشتمل تھا،
اس طرح کل حصے،
چھتیس سو (3600)
ہوئے،
ان میں سے نصف یعنی اٹھارہ سو (1800)
حصے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات اور حوادث کے لیے الگ کر لیے اور اٹھارہ سو حصے مسلمانوں میں اس لیے تقسیم کیے گئے کہ وہ اہل حدیبیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ اور انعام تھا،
اہل حدیبیہ کی تعداد چودہ سو (1400)
تھی،
جو خیبر آئے وہ اپنے ساتھ دو سو (200)
گھوڑے لائے تھے اور گھوڑ سوار کو تین حصے ملتے ہیں،
اس طرح دو سو (200)
سواروں کو چھ سو حصے آئے اور باقی بارہ سو پیدل حضرات کو 12 سو حصے آئے،
تفصیل کے لیے سيرة ابن هشام مع الروض الانف للسهيلي،
ج 2 ص 246 اور الرحیق المختوم،
غزوہ خیبر دیکھیں۔
(4)
انما ياكل آل محمد في هذا المال:
آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال سے کھائے گا،
اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی قرابت کو ان منافع سے محروم نہیں کیا جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حاصل تھے،
صرف بطور وراثت مال دینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق انکار کیا اور اگر ان اموال کا نظم و نسق حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا جاتا،
جس کے وہ خواہشمند تھے تو اس میں وراثت والی صورت حال پیدا ہو جاتی،
جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ اموال حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تولیت میں دئیے تھے تو ان میں اختلاف پیدا ہو گیا اور معاملہ دور تک جا پہنچا۔
عمر بن شبہ تاریخ مدینہ میں لکھتے ہیں،
فلم تكلمه في ذالك المال حتي ماتت:
وہ اس کے بارے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے وفات تک گفتگو نہیں کی،
سنن ابی داؤد کی حدیث نمبر 2973 ہے،
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا،
فانت وما سمعت:
تو اپنے سنے ہوئے پر عمل کرنے میں آزاد ہے،
اس لیے ابن کثیر لکھتے ہیں،
انها سلمت له ماقال:
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قول تسلیم کر لیا،
(البدایة والنھایة،
ج 5،
ص 289)
(الریاض النضرۃ ج 1 ص 156۔
)

ان فاطمة لم تمت الاراضية عن ابي بكر،
(عمدۃ القاری ج 10،
ص 20)
(5)
فغضبت فاطمه ووجدت،
فهجرته:
یہ امام زھری کا اپنا تصور یا خیال ہے جو کئی روایات کے منافی ہے،
تفصیل کے لیے دیکھئے،
تکملہ ج 3،
ص 92 تا 96۔
باقر مجلسی جلاء العین ص 172 پر لکھتے ہیں،
بوصيت العمل نموده خود متوجه تيمارداري بود اسماء بنت عميس آن حضرت راوريں امور معونت مي كرد،
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تلقین و تاکید پر عمل کرتے ہوئے بذات خود ان کی تیمارداری پر توجہ دی اور اس سلسلہ میں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے ان سے تعاون کیا،
مصنف عبدالرزاق ج: 3،
ص 410،
پر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل میں نے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیا۔
(6)
ولم يؤذن بها ابابكر:
یہ بھی زہری کا خیال ہے اور اس کے خلاف روایات موجود ہیں،
کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی،
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا،
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تیمارداری کرتی رہی ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ،
وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دینے میں شریک تھیں۔
تفصیل کے لیے دیکھئے تکملہ ج3،
ص 101،
102۔
(7)
اصلي عليها علي:
یہ بھی زہری کا خیال ہے اور کئی مرسل روایات اس کے خلاف موجود ہیں،
جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جنازہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔
تکملہ،
ج3،
ص 103۔
ابو نعیم رحمہ اللہ حلیۃ الاولیاء ج 4 ص 96 پر لکھتے ہیں،
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں كبر ابوبكر علي فاطمه اربعا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جنازہ میں چار تکبیریں کہیں۔
(8)
ولم يكن بايع تلك الاشهر:
انہوں نے چھ ماہ بیعت نہیں کی،
یہ بھی زہری کا کلام ہے،
تکملہ ج: 3،
ص 106۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دو تین دن کے اندر بیعت کر لی تھی۔
تکملہ،
ج 3 ص 107 تا 109۔
تفصیل کے لیے دیکھئے صدیق اکبر بحث حضرت علی کی بیعت ص 89 تا 103 چھ ماہ کے بعد تجدید بیعت کی تھی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں وہ مشغولیت کی بنا پر اجتماعی امور میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں،
اس واقعہ کا ایک اہم اور قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی دن بیعت کی ہے یا وفات کے دوسرے دن اور یہی حقیقت امر ہے،
کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہیں چھوڑا اور کسی نماز میں بھی غیر حاضر نہیں رہے،
البدایہ والنہایہ ج5،
ص 249۔
مولانا علی میاں لکھتے ہیں،
ابن کثیر اور دوسرے اہل علم کا رجحان اس طرف ہے کہ دوسری بیعت پہلی بیعت کی توثیق و تجدید تھی،
اس سلسلہ میں صحیحین اور ان کے علاوہ دوسری کتابوں میں متعدد روایتیں ہیں،
دیکھئے البدایہ والنہایہ ج 5 ص 346۔
(9)
لم ننفس عليك:
ہمیں آپ سے حسد و کینہ نہیں ہے۔
(10)
كان المسلمون الي علي قريبا:
مسلمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس طرز عمل سے بہت خوش ہوئے اور ان کے پہلے سے زیادہ قریب ہو گئے۔
فوائد ومسائل:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آنے کی دعوت دی اور کہا،
آپ کے ساتھ کوئی اور نہ کہے،
کیونکہ خلیفہ ابوبکر تھے اور وہ ان سے علیحدگی میں اپنا شکوہ و شکایات بیان کرنا چاہتے اور حضرت ابوبکر چونکہ نہایت نرم دل،
بردبار متحمل اور رقیق القلب تھے،
اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے،
وہ تمام شکوہ شکایت تحمل اور متانت سے سن لیں گے،
اگر ان کے ساتھ کوئی اور آ گیا،
خاص کر عمر رضی اللہ عنہ آ گئے تو چونکہ وہ ذرا سخت مزاج کے تھے اور اصول پسند تھے،
شاید وہ ہمارا شکوہ و شکایت پوری طرح نہیں سن سکیں یا اس پر کسی رد عمل کا اظہار کریں،
اس طرح باہمی اعتماد کی فضا قائم نہ رہ سکے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اکیلے جانے سے اس لیے روکا کہ شاید وہ اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے بات کرنے میں زیادہ لچک اور نرمی اختیار کریں یا ان کو اگر کوئی سخت بات کہی جائے تو وہ اس کا جواب نہ دیں،
اس طرح خلیفہ کا وقار مجروم ہو،
لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے،
اب اتنا عرصہ ہو گیا ہے،
وہ آغاز کا رنج اور غصہ زائل ہو چکا ہے،
اس لیے ان سے کسی قسم کے غلط سلوک کا خطرہ نہیں ہے اور ان کی رائے کے عین مطابق اعتماد کی فضا میں بات چیت ہوئی،
شکوہ و شکایت نہیں سنائے گئے اور افہام و تفہیم سے مسئلہ حل ہو گیا اور انہوں نے تجدید بیعت کر کے،
بعد میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور بعد و دوری کی فضا بالکل ختم ہو گئی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4580   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4582  
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لوٹائے ہوئے مال سے جو کچھ چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا حصہ انہیں دیں تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4582]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب مدینہ والے صدقات کا انتظام کے سلسلہ میں حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما میں اختلاف رونما ہوا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو دونوں میں تقسیم کرنے سے انکار کر دیا تو وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے قدم پیچھے ہٹا لیا اور آہستہ آہستہ ان صدقات کی تولیت و انتظام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں چلا گیا،
لیکن فدک اور خیبر والا حصہ،
خلیفہ کے کنٹرول میں رہا،
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اسے اپنے دور حکومت میں اپنی اولاد کو نہیں دیا،
کیونکہ اس کو مسلمانوں کے مفادات اور حکومت و ریاست کی ضروریات پر خرچ کیا جاتا تھا،
بس یہی اس کے حقدار تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4582   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4241  
4241. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ‬ ؓ ن‬ے حضرت ابوبکر ؓ کی طرف قاصد روانہ کیا وہ ان سے رسول اللہ ﷺ کی اس وراثت کا مطالبہ کرتی تھیں جو اللہ تعالٰی نے آپ کو مدینہ طیبہ میں بطور فے دی تھی۔ کچھ فدک سے اور کچھ خیبر کے خمس سے باقی بچی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ہماری وراثت نہیں چلتی۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، البتہ آل محمد اس مال فے سے کھا پی سکتے ہیں۔" اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ کے صدقت میں کچھ بھی تبدیلی نہیں کروں گا۔ وہ اسی حالت میں رہیں گے جس حالت پر رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تھے۔ اور میں ان میں وہی عمل کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ بہرحال حضرت ابوبکر ؓ نے سیدہ فاطمہ‬ ؓ ک‬و ان اموال میں سے کچھ دینے سے انکار کر دیا۔ بنا بریں وہ حضرت ابوبکر ؓ سے ناراض ہو گئیں اور ان سے میل ملاقات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4241]
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ اپنے خطبہ کے بعد اٹھے اور حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
ان کے بیعت کرتے ہی سب بنو ہاشم نے بیعت کر لی اور ابو بکر کی خلافت پر تمام صحابہ ؓ کا اجتماع ہو گیا۔
اب جو ان کی خلافت کو صحیح نہ سمجھے وہ تمام صحابہ کا مخالف ہے اور وہ اس آیت کی وعید شدید میں داخل ہے۔
﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى﴾ (نساء: 115)
ابن حبان نے ابو سعید سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ کے ہاتھ پر شروع ہی میں بیعت کرلی تھی۔
بیہقی نے اسی روایت کو صحیح کہا ہے تو اب مکرر بیعت تاکید کے لیے ہوگی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4241   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6726  
6726. حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے۔ بلاشبہ حضرت محمد ﷺ کے اہل خانہ صرف اسی مال سے اپنے اخراجات پورے کریں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مزید کہا: اللہ کی قسم! میں کوئی ایسی بات نہیں ہونے دوں گا بلکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جو کام کرتے دیکھا میں بھی وہی کچھ کروں گا۔ اس وضاحت کے بعد سیدہ فاطمہ‬ ؓ ن‬ے آپ سے مفارقت اختیار کرلی اور اپنی موت تک ان سے کلام نہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6726]
حدیث حاشیہ:
شرح وحیدی میں ہے کہ بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو راضی کر لیا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6726   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3712  
3712. حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ہمارے(ترکہ میں) وراثت جاری نہیں ہوتی۔ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ البتہ آل محمد کے اخراجات اسی مال سے پورے کیے جائیں۔ خوردنوش سے زیادہ ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کے صدقات، جو نبی کریم ﷺ کے زمانے مبارک میں ہوا کرتے تھے، میں ان میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا بلکہ ان میں وہ نظام جاری رکھوں گا جو رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمایا تھا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ آپ کے ہاں آئے اور کہنے لگے: ابوبکر!ہم آپ کے مقام اور مرتبے کا اعتراف کرتے ہیں، پھر انھوں نے رسول اللہ ﷺ سےاپنی قرابت اور حق کا ذکر کیا۔ حضرت ابوبکر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے ساتھ بہتر سلوک سے زیادہ محبوب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3712]
حدیث حاشیہ:

حضرت فاطمہ ؓ کا خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے تمام صدقات آپ کی ملکیت تھے،اس لیے اس ترکے سے ہمیں حصہ ملنا چاہیے لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ کی قرابت داری مجھے اپنی قرابت داری سے زیادہ محبوب ہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور معمولات کے پیش نظر آپ کے صدقات وترکات کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ تمام آپ کی آل واولاد،ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اور دیگر عام مصالح کے لیے وقف ہیں۔
یہ ایسے صدقات ہیں جن پر آپ کی وفات کے بعد ملکیت کا دعویٰ نہیں کیاجاسکتا،بلکہ مذکورہ حضرات قیاس قیامت تک ان سے اپنی ضرورتیں پوری کرتے رہیں گے۔
لیکن اسے اپنی ملکیت تصور نہیں کریں گے۔

بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرنے کا بیان ہے،اس لیے امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3712   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4241  
4241. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ‬ ؓ ن‬ے حضرت ابوبکر ؓ کی طرف قاصد روانہ کیا وہ ان سے رسول اللہ ﷺ کی اس وراثت کا مطالبہ کرتی تھیں جو اللہ تعالٰی نے آپ کو مدینہ طیبہ میں بطور فے دی تھی۔ کچھ فدک سے اور کچھ خیبر کے خمس سے باقی بچی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ہماری وراثت نہیں چلتی۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، البتہ آل محمد اس مال فے سے کھا پی سکتے ہیں۔" اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ کے صدقت میں کچھ بھی تبدیلی نہیں کروں گا۔ وہ اسی حالت میں رہیں گے جس حالت پر رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تھے۔ اور میں ان میں وہی عمل کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ بہرحال حضرت ابوبکر ؓ نے سیدہ فاطمہ‬ ؓ ک‬و ان اموال میں سے کچھ دینے سے انکار کر دیا۔ بنا بریں وہ حضرت ابوبکر ؓ سے ناراض ہو گئیں اور ان سے میل ملاقات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4241]
حدیث حاشیہ:

مال فے سے مراد وہ مال ہے جو جنگ وقتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
مدینہ طیبہ میں یہ وہ اموال تھے جو بنو نضیر کو جلاوطن کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو ملے تھے، اسی طرح فدک کی زمین بھی آپ کو بطور فے ہی ملی تھی، کچھ خیبر کی زمینیں بھی اسی طرح آپ کے ہاتھ آئی تھیں۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو غزوہ خیبر کے عنوان کے تحت اس لیے بیان کیا ہے کہ ان مفتوحہ زمینوں کی حیثیت کھول دیں۔
آپ خیبر کی زمین کو اہل خیبر اور مصالحہ عامہ پرخرچ کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کے تمام متروکات صدقہ بن گیا، ان پر مالکانہ حقوق قائم کرنا درست نہ تھا جیسا کہ آپ کاارشاد گرامی ہے:
ہماراکوئی وارث نہیں ہماراترکہ صدقہ ہے۔
(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7305۔
)

ان متروکات سے رسول اللہ ﷺ کے خاندان کی معاشی ضروریات کو پورا کیا جاتا اور جو بچ رہتا اسے مصالح عامہ میں صرف کردیاجاتا۔

صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت علی ؓ اپنے خطبے سے فارغ ہوکر اٹھے اور حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کی، اس طرح حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت پر تمام صحابہ کرام ؓ کااجماع ہوگیا۔
(صحیح مسلم، فضائل الجھاد، حدیث: 4581(1759)
اب جو ان کی خلافت کو صحیح خیال نہ کرے وہ تمام صحابہ کرام اور ان کے اجماعی فیصلے کا مخالف ہے۔
اور درج ذیل آیت کی وعید شدید میں داخل ہے:
جو مسلمانوں کے راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے،ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر وہ جانا چاہتا ہے اور قیامت کے دن اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بُرا مقام ہے۔
(النساء: 115: 4۔
)

اس روایت کی بنا پر روافض نے حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق بڑے غیض وغضب کا اظہار کیا ہے ہم کسی مناسب موقع پر اس کا جواب دیں گے۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4241   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6730  
6730. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے تو آپ کی ازواج مطہرات نے ارادہ کیا کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کو حضرت ابو بکر ؓ کے پاس بھیجیں تاکہ ان میں سے اپنی وراثت کا مطالبہ کریں۔ (اس وقت) سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے (انہیں یاد دلاتے ہوئے) کہا: کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا: ہماری رواثت تقسیم نہیں ہوتی ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6730]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث کے پیش کرنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کا قطعاً یہ مقصود نہیں کہ مشاجرات صحابہ کے درمیان کوئی محاکمہ یا فیصلہ کن کردار ادا کریں کیونکہ ان مسائل کا کتاب الفرائض سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ہمارے رجحان کے مطابق ان احادیث کو حسب ذیل دو مقاصد کے لیے ذکر کیا گیا ہے:
٭ حضرات انبیاء علیہم السلام بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ایک قومی صدقہ ہے، اس میں ضابطۂ وراثت جاری نہیں ہو گا۔
اگر ان کی طرف کسی مقام پر لفظ وراثت منسوب ہے تو اس سے علمی اور دینی ورثہ ہے جس کے حق دار تمام اہل اسلام ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داود علیہ السلام کے وارث ہوئے۔
اس سے مراد وراثتِ نبوت اور وراثتِ علم و حکمت ہے، مالی وراثت قطعاً مقصود نہیں۔
اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی تھی:
اے اللہ! مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے۔
اس سے بھی علم و حکمت کی وراثت مراد ہے۔
٭ جو مال وقف ہوتا ہے وہ بھی ضابطۂ وراثت سے مستثنیٰ ہے کیونکہ جس مال میں ضابطۂ میراث جاری ہوتا ہے اس کا ذاتی ملکیت ہونا ضروری ہے۔
حضراتِ انبیاء علیہم السلام کا مال وقف ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
ہم انبیاء کی جماعت کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم ترکہ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔
(السنن الکبریٰ للنسائي، الفرائض، حدیث: 6275)
معلوم ہوا کہ وقف مال میں ضابطۂ وراثت جاری نہیں ہوتا۔
(2)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ہے کہ دو چیزیں ضابطۂ میراث سے خارج ہیں:
ان میں ایک حضراتِ انبیاء علیہم السلام کا ترکہ ہے اور دوسری چیز وقف مال ہے۔
یہ دونوں چیزیں ضابطۂ میراث سے مستثنیٰ ہیں۔
واللہ أعلم۔
باقی رہا فدک اور خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مملوکات کا معاملہ! تو اس کے متعلق آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ اور اس کی شرعی حیثیت کے متعلق ہم آئندہ کسی موقع پر بحث کریں گے۔
إن شاءاللہ تعالیٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6730