اذان کا بیان अज़ान के बारे में جو شخص لوگوں کی امامت کے لیے جائے اتنے میں امام اول آ جائے (تو کیا کرنا چاہیے؟)۔ “ यदि कोई इमाम बनकर नमाज़ पढ़ाने लगे और पहला इमाम आजाए ”
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کی طرف ان میں باہم صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن، امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں تو میں اقامت کہوں؟ انھوں نے کہا ہاں۔ پس صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور لوگ نماز میں مشغول تھے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم (صفوں میں) داخل ہوئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں جا کر ٹھہر گئے اور لوگ تالی بجانے لگے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے لیکن جب لوگوں نے زیادہ تالیاں بجائیں تو انھوں نے پیچھے دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ پر کھڑے رہو تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کے اور اس بناء پر کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا اللہ کا شکر ادا کیا پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹ گئے، یہاں تک کہ صف میں آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: ”اے ابوبکر! جب میں نے تم کو حکم دیا تھا تو تم کیوں نہ کھڑے رہے؟“ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کہ ابوقحافہ کے بیٹے کی مجال نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نماز پڑھائے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا سبب ہے کہ میں نے تم کو دیکھا تم نے تالیاں بکثرت بجائیں؟ (دیکھو) جب کسی کو نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو اسے چاہیے کہ سبحان اللہ کہہ دے کیونکہ وہ سبحان اللہ کہہ دے گا تو اس کی طرف التفات کیا جائے گا اور تالی بجانا تو صرف عورتوں کے لیے (جائز) ہے۔“
|