اذان کا بیان अज़ान के बारे में کیا امام، جس قدر لوگ موجود ہوں ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور کیا جمعہ کے دن بارش میں خطبہ پڑھے؟ “ जितने भी लोग मौजूद हों तो क्या इमाम उनके साथ नमाज़ पढ़ले और क्या जुमा के दिन बारिश में ख़ुत्बा दे ”
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دفعہ بارش والے دن میں جمعہ کا خطبہ پڑھا اور مؤذن کو جب وہ ”حیّ علی الصّلاۃ“ پر پہنچا، یہ حکم دیا کہ کہہ دے ”الصّلاۃ فی الرّحال“ (اپنی اپنی جگہ پر نماز ادا کر لو) تو لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے گویا کہ انھوں نے (اس کو) برا سمجھا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اس کو برا سمجھا ہے تو بیشک اس (عمل) کو اس نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے، بیشک جمعہ واجب ہے اور مجھے اچھا معلوم نہ ہوا کہ تمہیں حرج میں ڈالوں (کہ تم مٹی کو گھٹنوں تک روندتے آؤ)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں (معذور ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز نہیں پڑھ سکتا اور وہ موٹا آدمی تھا پس اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مکان میں بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چٹائی بچھا دی اور چٹائی کے ایک کنارے کو دھو دیا تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی۔ اتنے میں آل جارود میں سے ایک شخص نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز چاشت پڑھا کرتے تھے؟ تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سوائے اس دن کے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے نہیں دیکھا۔
|