اذان کا بیان अज़ान के बारे में صاحب علم و فضل امامت کا زیادہ حقدار ہے۔ “ ज्ञानी और अच्छा व्यक्ति इमाम बनना चाहिए ”
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں“ پہلے گزر چکی ہے (دیکھیں باب: مریض کو کتنی بیماری تک جماعت میں حاضر ہونا چاہیے؟) اور اس روایت میں کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ بیشک سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (اپنی قرآت) نہ سنا سکیں گے لہٰذا آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیجئیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے۔ تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (اپنی قرآت) نہ سنا سکیں گے۔ پس حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہہ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرو! یقیناً تم لوگ یوسف علیہ السلام کی ہم نشین عورتوں کی طرح ہو۔“ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔“ تو ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے کبھی تم سے فائدہ نہ پایا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی، لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے یہاں تک کہ جب دو شنبہ کا دن ہوا اور لوگ نماز میں صف بستہ تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھایا اور ہم لوگوں کی طرف کھڑے ہو کر دیکھنے لگے (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک گویا مصحف کا صفحہ تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشاشت سے مسکرائے ہم لوگوں نے خوشی کی وجہ سے چاہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے میں مشغول ہو جائیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے الٹے پاؤں پیچھے ہٹ آئے تاکہ صف میں مل جائیں۔ وہ سمجھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے آنے والے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔
|