المرض والجنائز والقبور بیماری، نماز جنازہ، قبرستان बीमारी, नमाज़ जनाज़ा और क़ब्रस्तान عذاب قبر “ अज़ाब क़ब्र ”
سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں بنو نجار کے کسی باغ میں تھی، وہاں دور جاہلیت میں مرنے والوں کی چند قبریں تھیں، انہیں جو عذاب ہو رہا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی دیا۔ سو آپ وہاں سے یہ فرماتے ہوئے نکلے: ”قبر کے عذاب سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کیا کرو۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آیا ان کو قبروں میں عذاب ہو رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایسا عذاب ہو رہا ہے جسے جانور بھی سنتے ہیں۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنونجار کی کھجوروں کے پاس سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں اور پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ صحابہ کرام نے جواب دیا کہ ایک آدمی کی قبر ہے جو جاہلیت میں مرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم لوگ (مردوں کو) دفن نہیں کرو گے تو میں اللہ عزوجل سے دعا کرتا کہ عذاب قبر کی جو آوازیں میں سنتا ہوں وہ تمہیں بھی سنا دے۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنونجار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور جاہلیت میں مرنے والے بنونجار کے آدمیوں کی آوازیں سنیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے خائف و پریشان ہو کر نکلے اور اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگا کریں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور عذاب قبر کا تذکرہ کرتے ہوئے مجھے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ مجھے عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر (کے ہونے یا نہ ہونے) کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، عذاب قبر حق ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس (واقعہ) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار کے ایک باغ میں اپنے خچر پر سوار جا رہے تھے، اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر جائیں۔ راوی حدیث جریری کے شک کے مطابق ادھر چار یا پانچ یا چھ قبریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ان قبر والوں کو جانتا ہے؟“ ایک آدمی نے کہا: میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ لوگ کب مرے تھے؟“ اس نے کہا: شرک کی حالت میں۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(انسانوں کی) امت کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے اور اگر تمہارے دفن نہ کرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ جو عذاب قبر میں سنتا ہوں وہ تمہیں بھی سنا دے۔“ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ”اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو عذاب قبر سے۔“ ہم نے کہا: ہم عذاب قبر سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم ظاہری اور باطنی فتنوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔“ ہم نے کہا: ہم دجال کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک بچے کو دفنایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی کو قبر کے دبوچنے سے چھٹکارا مل سکتا ہوتا تو وہ یہ بچہ ہوتا۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں! اس امت (انسانیت) کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے، جب کسی شخص کو دفن کر دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چلے جاتے ہیں تو ایک فرشتہ اس کے پاس آتا ہے، اس کے ہاتھ میں کوٹنے چھیدنے کا آلہ ہوتا ہے، وہ اس شخص کو بٹھا کر پوچھتا ہے: اس آدمی کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟ اگر وہ مومن ہو تو جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ کہتا ہے: تو نے سچ کہا:۔ پھر جہنم کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ دیکھ اگر تو اپنے رب کے ساتھ کفر کرتا تو یہ تیرا ٹھکانہ ہوتا۔ اب جبکہ تو ایمان لایا ہے، تیری منزل یہ ہے، اس کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اب وہ شخص (جنت میں داخل ہونے کے لیے) اٹھنے کا ارادہ کرتا ہے، لیکن فرشتہ کہتا ہے: ٹھیر جا! پھر اس کی قبر کو وسیع کر دیتا ہے۔ اگر دفن کیا جانے والا کافر یا منافق ہو تو فرشتہ پوچھتا ہے کہ تو اس آدمی کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں تو نہیں جانتا، میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا، اسی طرح کہا تو تھا (لیکن اب میرے ذہن میں کوئی جواب نہیں ہے)۔ فرشتہ کہتا ہے: نہ تو نے سوجھ بوجھ حاصل کی، نہ تو نے پڑھا اور نہ تو نے ہدایت پائی۔ پھر جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ تیری منزل ہوتی بشرطیکہ تو اپنے رب پر ایمان لاتا، اب جبکہ تو کافر ہے، اللہ تعالیٰ نے تجھے اس کے بدلے یہ ٹھکانہ دیا ہے، اتنے میں جہنم کی طرف سے دروازہ کھول دیتا ہے اور اس کے سر پر وہ آلہ (اس زور سے) مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ہر کوئی اس کی آواز سنتا ہے۔ یہ حدیث سن کر بعض لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو شخص بھی فرشتے کے ہاتھ میں وہ آلہ دیکھے گا وہ (دہشت کی وجہ سے) بے شعور سا ہو کر رہ جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً یہ آیت تلاوت فرمائی: «يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ» (سورہ ابراھیم: ۲۷) اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ ثابت قدم رکھتا ہے۔“
|