المرض والجنائز والقبور بیماری، نماز جنازہ، قبرستان बीमारी, नमाज़ जनाज़ा और क़ब्रस्तान مومن اور کافر کی موتوں کے منظر، عالم برزخ میں مومنوں کی ارواح کا آپس میں تعارف “ मोमिन और काफ़िर की मौत का दृश्य ، बरज़ख़ में मोमिनों की आत्माओं की आपस में बातचीत ”
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو فرشتے ریشم کا سفید کپڑا لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں: (اے روح!) اللہ تعالیٰ کی رحم و مہربانی کی طرف اور ایسے رب کی طرف نکل جو غصے میں نہیں ہے، اس حال میں کہ تو بھی خوش ہے اور تیرا رب بھی تجھ پر خوش ہے۔ جب وہ روح نکلتی ہے تو کستوری کی پاکیزہ ترین خوشبو آتی ہے، فرشتے اسے وصول کر کے ایک دوسرے کو تھماتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ آسمان کے دراوازے تک پہنچ جاتے ہیں۔ آسمان کے فرشتے کہتے ہیں: کتنی پیاری خوشبو ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے۔ فرشتے اس روح کو مومنوں کی ارواح میں لے جاتے ہیں۔ اس کی آمد سے انہیں بہت خوشی ہوتی ہے جیسے پردیسی کے آنے سے ہم خوش ہوتے ہیں، پہلے سے موجود روحیں اس روح سے سوال کرتی ہیں: فلاں کیسے تھا؟ فلاں کی سنائیں؟ وہ جواب دیتی ہے: اسے چھوڑئیے، وہ تو دنیوی فکر و غم میں مبتلا تھا۔ (اور فلاں تو مجھ سے پہلے مر چکا تھا کیا اس کی روح) تمہارے پاس نہیں آئی؟ وہ کہتی ہیں: (نہیں، اور یہاں نہ پہنچنے کا مطلب یہ ہوا کہ) وہ اپنے ٹھکانے ”ہاویہ“ (جہنم) میں پہنچ چکی ہے۔ (مومن کے برعکس) جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو عذاب والے فرشتے ایک ٹاٹ لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں: (اے روح!) اللہ کے عذاب کی طرف نکل، اس حال میں کہ تو بھی ناپسند کر رہی ہے اور تیرا رب بھی تجھ سے ناراض ہے، بہرحال وہ نکلتی ہے اور اس سے سڑی ہوئی لاش کی طرح کی بدترین بدبو آتی ہے، فرشتے اسے وصول کر کے زمیں کے دروازے پر لے جاتے ہیں اور کفار کی ارواح میں پہنچا دیتے ہیں۔ (راستے میں ملنے والے) فرشتے کہتے ہیں: کتنی بدترین بدبو ہے!“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مومن پر عالم نزع طاری ہوتا ہے تو وہ مختلف حقائق کا مشاہدہ کر کے یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی روح نکل جائے (تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کر سکے) اور اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتے ہیں۔ مومن کی روح آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور (فوت شدگان) مومنوں کی ارواح کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ وہ اس سے اپنے جاننے پہچاننے والوں کے بارے میں دریافت کرتی ہیں۔ جب وہ روح جواب دیتی ہے کہ فلاں تو ابھی تک دنیا میں ہی تھا (یعنی ابھی تک فوت نہیں ہوا تھا) تو وہ خوش ہوتی ہیں اور جب وہ جواب دیتی ہے کہ (جس آدمی کے بارے میں تم پوچھ رہی ہو) وہ تو مر چکا ہے، تو وہ کہتی ہیں: اسے ہمارے پاس نہیں لایا گیا (اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے جہنم میں لے جایا گیا ہے)۔ مومن کو قبر میں بٹھا دیا جاتا ہے اور اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرے نبی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پھر سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ (ان سوالات و جوابات کے بعد) اس کی قبر میں ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ۔ وہ اپنی قبر کی طرف دیکھتا ہے، پھر گویا کہ نیند طاری ہو جاتی ہے۔ جب اللہ کے دشمن پر عالم نزع طاری ہوتا ہے اور وہ مختلف حقائق کا مشاہدہ کرتا ہے تو وہ نہیں چاہتا کہ اس کی روح نکلے (تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے بچ جائے) اور اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ جب اسے قبر میں بٹھا دیا جاتا ہے تو پوچھا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میں تو نہیں جانتا۔ اسے کہا جاتا ہے: تو نے جانا ہی نہیں۔ پھر (اس کی قبر میں) جہنم سے دروازہ کھولا جاتا ہے اور اسے ایسی ضرب لگائی جاتی ہے کہ جن و انس کے علاوہ ہر چوپایہ اس کو سنتا ہے۔ پھر اسے کہا جاتا ہے کہ «منهوش» کی نیند سو جا۔“ میں نے سیدنا ابوہریرہ ضی اللہ عنہ سے پوچھا: «منهوش» سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: «منهوش» سے مراد وہ آدمی ہے جسے کیڑے مکوڑے اور سانپ ڈستے اور نوچتے رہتے ہیں۔ ”پھر اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے۔“
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب (مسلمان) بندے کی روح قبض کی جاتی ہے تو (پہلے فوت ہونے والے) اللہ تعالیٰ کے بندے اس کا استقبال کرتے ہیں جیسے دنیا میں لوگ خوشخبری دینے والے کو (خوشی سے) ملتے ہیں، جب وہ بندے (اسے بیدار کر کے) اس سے سوال کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کو آرام کرنے دو، وہ دنیا کی بے چینی و پریشانی میں مبتلا تھا۔ بالآخر وہ پوچھتے ہیں کہ فلاں کیا کر رہا تھا؟ آیا اس کی شادی ہو گئی تھی؟ جب وہ کسی ایسے آدمی کے بارے میں سوال کرتے ہیں جو اس سے پہلے مر چکا ہوتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے کہ وہ تو مجھ سے پہلے مر چکا تھا، تو وہ کہتے ہیں: «انا لله وانا اليه راجعون» (وہ بندہ یہاں تو نہیں پہنچا) اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے ٹھکانے نے جہنم میں چلا گیا ہے۔ وہ برا ٹھکانہ ہے اور بری پرورش گاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ان بندوں پر ان کے نیک اعمال پیش کئے جاتے ہیں، جب وہ اچھا عمل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں: اے اللہ! یہ تیری اپنے بندے پر نعمت ہے، تو اس کو پورا کر دے اور جب وہ برا عمل دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں: اے اللہ! اپنے بندے پر رجوع کر۔
|