الحدود والمعاملات والاحكام حدود، معاملات، احکام सीमाएं, मामले, नियम خلاف شریعت امور کو روکنا باعث نجات اور نہ روکنا باعث ہلاکت ہے “ शरिअत के ख़िलाफ़ मामलों को रोकना मुक्ति का कारण है और न रोकना हलाकत है ”
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود کو قائم کرنے والا ہے اور اس کی جو ان حدود میں مبتلا ہونے اور کوتاہی کرنے والا ہے، ان لوگوں کی طرح ہے (جو ایک کشتی میں سوار ہوئے) انہوں نے کشتی کے (اوپر اور نیچے والے حصوں کے لیے) قرعہ اندازی کی، پس ان میں سے بعض اس کی بالائی منزل پر اور بعض نچلی منزل پر بیٹھ گئے، نچلی منزل والوں کو جب پانی لینے کی طلب ہوتی تو وہ اوپر آتے اور بالا نشینوں سے گزرتے، لیکن انہیں ناگوار گزرتا (ایک روایت میں یوں ہے: نچلی منزل والے پانی لینے کے لیے اوپر چڑھتے، تو اوپر والے لوگوں پر پانی گر جاتا تھا، اس لیے اوپر والی منزل کے لوگوں نے کہا: ہم تمہیں اوپر نہیں آنے دیں گے، تم اوپر چڑھ آتے ہو اور ہمیں تکلیف دیتے ہو) انہوں نے سوچا کہ اگر ہم اپنے نچلے والے حصے میں سوراخ کر لیں اور اس سے پانی حاصل کر لیں، تاکہ اوپر والوں کو تکلیف نہ ہو (اور ایک روایت میں ہے: تاکہ ہم اوپر والوں کے پاس سے گزر کر انہیں تکلیف نہ دیں)۔ (اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے) ایک آدمی نے کلہاڑا پکڑا اور کشتی کے نچلے حصے میں کریدنا شروع کر دیا۔ اوپر والے لوگ اس کے پاس آئے اور کہا: کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا:! تم تکلیف محسوس کرتے ہو اور ہمیں پانی کی ضرورت ہے۔ اگر اوپر والے لوگ نیچے والوں کو اور ان کے ارادے کو نظر انداز کر دیں گے تو وہ سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے، اور اگر وہ انہیں پکڑ لیں تو خود بھی نجات پا جائیں گے اور ان کو بھی بچا لیں گے۔“
|