كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل 17. باب مَا جَاءَ فِي الْخَرْصِ باب: درخت میں موجود پھل کا تخمینہ لگانا۔
عبدالرحمٰن بن مسعود بن نیار کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ ہماری مجلس میں آئے تو بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جب تم تخمینہ لگاؤ تو تخمینہ کے مطابق لو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو، اگر ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو چوتھائی چھوڑ دیا کرو“ ۱؎۔
۱- اس باب میں عائشہ، عتاب بن اسید اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۲- تخمینہ لگانے کے سلسلے میں اکثر اہل علم کا عمل سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کی حدیث پر ہے اور سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کی حدیث ہی کے مطابق احمد اور شافعی بھی کہتے ہیں، تخمینہ لگانا یہ ہے کہ جب کھجور یا انگور کے پھل جن کی زکاۃ دی جاتی ہے پک جائیں تو سلطان (انتظامیہ) ایک تخمینہ لگانے والے کو بھیجے جو اندازہ لگا کر بتائے کہ اس میں کتنا غلہ یا پھل ہو گا اور تخمینہ لگانا یہ ہے کہ کوئی تجربہ کار آدمی دیکھ کر یہ بتائے کہ اس درخت سے اتنا اتنا انگور نکلے گا، اور اس سے اتنی اتنی کھجور نکلے گی۔ پھر وہ اسے جوڑ کر دیکھے کہ کتنا عشر کی مقدار کو پہنچا، تو ان پر وہی عشر مقرر کر دے۔ اور پھل کے پکنے تک ان کو مہلت دے، پھل توڑنے کے وقت اپنا عشر دیتے رہیں۔ پھر مالکوں کو اختیار ہو گا کہ بقیہ سے جو چاہیں کریں۔ بعض اہل علم نے تخمینہ لگانے کی تشریح اسی طرح کی ہے، اور یہی مالک شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 14 (1605)، سنن النسائی/الزکاة 14 (1605)، سنن النسائی/الزکاة 26 (2493)، (تحفة الأشراف: 4647)، مسند احمد (4/3) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن مسعود لین الحدیث ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یہ خطاب زکاۃ وصول کرنے والے عمال اور ان لوگوں کو ہے جو زکاۃ کی وصولی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں، تہائی یا چوتھائی حصہ چھوڑ دینے کا حکم اس لیے ہے تاکہ مالک پھل توڑتے وقت اپنے اعزہ و اقرباء اور اپنے ہمسایوں مسافروں وغیرہ پر خرچ کر سکے اور اس کی وجہ سے وہ کسی حرج اور تنگی میں مبتلا نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (281)، الضعيفة (2556)
عتاب بن اسید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس ایک آدمی بھیجتے تھے جو ان کے انگوروں اور دوسرے پھلوں کا تخمینہ لگاتا تھا۔ اسی سند سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کی زکاۃ کے بارے میں فرمایا: ”اس کا بھی تخمینہ لگایا جائے گا، جیسے کھجور کا لگایا جاتا ہے، پھر کشمش ہو جانے کے بعد اس کی زکاۃ نکالی جائے گی جیسے کھجور کی زکاۃ تمر ہو جانے کے بعد نکالی جاتی ہے۔ (یعنی جب خشک ہو جائیں)“
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابن جریج نے یہ حدیث بطریق: «ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة» روایت کی ہے، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: ابن جریج کی حدیث محفوظ نہیں ہے اور ابن مسیب کی حدیث جسے انہوں نے عتاب بن اسید سے روایت کی ہے زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے (بس صرف سنداً، ورنہ ضعیف یہ بھی ہے)۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 13 (1603)، سنن النسائی/الزکاة 100 (2619)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 18 (1891)، (تحفة الأشراف: 9748) (ضعیف) (سعید بن المسیب اور عتاب رضی الله عنہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (807)، ضعيف أبي داود (280) // عندنا برقم (347 / 1603) //
|