(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن بيان بن بشر، عن قيس بن ابي حازم، عن ابي هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لان يغدو احدكم فيحتطب على ظهره فيتصدق منه فيستغني به عن الناس، خير له من ان يسال رجلا اعطاه او منعه ذلك، فإن اليد العليا افضل من اليد السفلى، وابدا بمن تعول ". قال: وفي الباب عن حكيم بن حزام، وابي سعيد الخدري، والزبير بن العوام، وعطية السعدي، وعبد الله بن مسعود، ومسعود بن عمرو، وابن عباس، وثوبان، وزياد بن الحارث الصدائي، وانس، وحبشي بن جنادة، وقبيصة بن مخارق، وسمرة، وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح غريب، يستغرب من حديث بيان، عن قيس.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ بَيَانِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَأَنْ يَغْدُوَ أَحَدُكُمْ فَيَحْتَطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَتَصَدَّقَ مِنْهُ فَيَسْتَغْنِيَ بِهِ عَنِ النَّاسِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ رَجُلًا أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ ذَلِكَ، فَإِنَّ الْيَدَ الْعُلْيَا أَفْضَلُ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَعَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَمَسْعُودِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَثَوْبَانَ، وَزِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ، وَأَنَسٍ، وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، وَقَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ، وَسَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ، عَنْ قَيْسٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے جائے اور لکڑیوں کا گٹھر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے اور اس میں سے (یعنی اس کی قیمت میں سے) صدقہ کرے اور اس طرح لوگوں سے بے نیاز رہے (یعنی ان سے نہ مانگے) اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے مانگے، وہ اسے دے یا نہ دے ۱؎ کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ۲؎، اور پہلے اسے دو جس کی تم خود کفالت کرتے ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- وہ بیان کی حدیث سے جسے انہوں نے قیس سے روایت کی ہے غریب جانی جاتی ہے، ۳- اس باب میں حکیم بن حزام، ابو سعید خدری، زبیر بن عوام، عطیہ سعدی، عبداللہ بن مسعود، مسعود بن عمرو، ابن عباس، ثوبان، زیاد بن حارث صدائی، انس، حبشی بن جنادہ، قبیصہ بن مخارق، سمرہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن عبدالملك بن عمير، عن زيد بن عقبة، عن سمرة بن جندب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن المسالة كد يكد بها الرجل وجهه إلا ان يسال الرجل سلطانا او في امر لا بد منه". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنْ الْمَسْأَلَةَ كَدٌّ يَكُدُّ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ إِلاَّ أَنْ يَسْأَلَ الرَّجُلُ سُلْطَانًا أَوْ فِي أَمْرٍ لاَ بُدَّ مِنْهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مانگنا ایک زخم ہے جس سے آدمی اپنا چہرہ زخمی کر لیتا ہے، سوائے اس کے کہ آدمی حاکم سے مانگے ۱؎ یا کسی ایسے کام کے لیے مانگے جو ضروری اور ناگزیر ہو“۔
وضاحت: ۱؎: حاکم سے مانگنے کا مطلب بیت المال کی طرف رجوع کرنا ہے جو اس مقصد کے لیے ہوتا ہے کہ اس سے ضرورت مند کی آبرو مندانہ کفالت کی جائے اگر وہاں تک نہ پہنچ سکے تو ناگزیر حالات و معاملات میں دوسروں سے سوال کرنا جائز ہے۔