سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book on Zakat
17. باب مَا جَاءَ فِي الْخَرْصِ
17. باب: درخت میں موجود پھل کا تخمینہ لگانا۔
Chapter: What Has Been Related About Al-Khars (Assessment)
حدیث نمبر: 643
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود الطيالسي، اخبرنا شعبة، اخبرني خبيب بن عبد الرحمن، قال: سمعت عبد الرحمن بن مسعود بن نيار، يقول: جاء سهل بن ابي حثمة إلى مجلسنا، فحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: " إذا خرصتم فخذوا ودعوا الثلث فإن لم تدعوا الثلث فدعوا الربع ". قال: وفي الباب عن عائشة، وعتاب بن اسيد، وابن عباس. قال ابو عيسى: والعمل على حديث سهل بن ابي حثمة عند اكثر اهل العلم في الخرص، وبحديث سهل بن ابي حثمة، يقول احمد، وإسحاق: والخرص: إذا ادركت الثمار من الرطب والعنب مما فيه الزكاة بعث السلطان خارصا يخرص عليهم، والخرص ان ينظر من يبصر ذلك، فيقول: يخرج من هذا الزبيب كذا وكذا ومن التمر كذا وكذا فيحصي عليهم وينظر مبلغ العشر من ذلك فيثبت عليهم، ثم يخلي بينهم وبين الثمار فيصنعون ما احبوا، فإذا ادركت الثمار اخذ منهم العشر. هكذا فسره بعض اهل العلم، وبهذا يقول مالك، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَسْعُودِ بْنِ نِيَارٍ، يَقُولُ: جَاءَ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ إِلَى مَجْلِسِنَا، فَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " إِذَا خَرَصْتُمْ فَخُذُوا وَدَعُوا الثُّلُثَ فَإِنْ لَمْ تَدَعُوا الثُّلُثَ فَدَعُوا الرُّبُعَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَعَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْخَرْصِ، وَبِحَدِيثِ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: وَالْخَرْصُ: إِذَا أَدْرَكَتِ الثِّمَارُ مِنَ الرُّطَبِ وَالْعِنَبِ مِمَّا فِيهِ الزَّكَاةُ بَعَثَ السُّلْطَانُ خَارِصًا يَخْرُصُ عَلَيْهِمْ، وَالْخَرْصُ أَنْ يَنْظُرَ مَنْ يُبْصِرُ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: يَخْرُجُ مِنْ هَذَا الزَّبِيبِ كَذَا وَكَذَا وَمِنَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَيُحْصِي عَلَيْهِمْ وَيَنْظُرُ مَبْلَغَ الْعُشْرِ مِنْ ذَلِكَ فَيُثْبِتُ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ يُخَلِّي بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الثِّمَارِ فَيَصْنَعُونَ مَا أَحَبُّوا، فَإِذَا أَدْرَكَتِ الثِّمَارُ أُخِذَ مِنْهُمُ الْعُشْرُ. هَكَذَا فَسَّرَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهَذَا يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
عبدالرحمٰن بن مسعود بن نیار کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ ہماری مجلس میں آئے تو بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جب تم تخمینہ لگاؤ تو تخمینہ کے مطابق لو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو، اگر ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو چوتھائی چھوڑ دیا کرو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عائشہ، عتاب بن اسید اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۲- تخمینہ لگانے کے سلسلے میں اکثر اہل علم کا عمل سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کی حدیث پر ہے اور سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کی حدیث ہی کے مطابق احمد اور شافعی بھی کہتے ہیں، تخمینہ لگانا یہ ہے کہ جب کھجور یا انگور کے پھل جن کی زکاۃ دی جاتی ہے پک جائیں تو سلطان (انتظامیہ) ایک تخمینہ لگانے والے کو بھیجے جو اندازہ لگا کر بتائے کہ اس میں کتنا غلہ یا پھل ہو گا اور تخمینہ لگانا یہ ہے کہ کوئی تجربہ کار آدمی دیکھ کر یہ بتائے کہ اس درخت سے اتنا اتنا انگور نکلے گا، اور اس سے اتنی اتنی کھجور نکلے گی۔ پھر وہ اسے جوڑ کر دیکھے کہ کتنا عشر کی مقدار کو پہنچا، تو ان پر وہی عشر مقرر کر دے۔ اور پھل کے پکنے تک ان کو مہلت دے، پھل توڑنے کے وقت اپنا عشر دیتے رہیں۔ پھر مالکوں کو اختیار ہو گا کہ بقیہ سے جو چاہیں کریں۔ بعض اہل علم نے تخمینہ لگانے کی تشریح اسی طرح کی ہے، اور یہی مالک شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

وضاحت:
۱؎: یہ خطاب زکاۃ وصول کرنے والے عمال اور ان لوگوں کو ہے جو زکاۃ کی وصولی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں، تہائی یا چوتھائی حصہ چھوڑ دینے کا حکم اس لیے ہے تاکہ مالک پھل توڑتے وقت اپنے اعزہ و اقرباء اور اپنے ہمسایوں مسافروں وغیرہ پر خرچ کر سکے اور اس کی وجہ سے وہ کسی حرج اور تنگی میں مبتلا نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 14 (1605)، سنن النسائی/الزکاة 14 (1605)، سنن النسائی/الزکاة 26 (2493)، (تحفة الأشراف: 4647)، مسند احمد (4/3) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن مسعود لین الحدیث ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (281)، الضعيفة (2556)

   سنن النسائى الصغرى2493سهل بن عبد اللهإذا خرصتم فخذوا ودعوا الثلث فإن لم تأخذوا أو تدعوا الثلث فدعوا الربع
   جامع الترمذي643سهل بن عبد اللهإذا خرصتم فخذوا ودعوا الثلث فإن لم تدعوا الثلث فدعوا الربع
   سنن أبي داود1605سهل بن عبد اللهإذا خرصتم فجذوا ودعوا الثلث فإن لم تدعوا أو تجذوا الثلث فدعوا الربع
   بلوغ المرام497سهل بن عبد الله‏‏‏‏إذا خرصتم فخذوا ودعوا الثلث فإن لم تدعوا الثلث فدعوا الربع

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 643 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 643  
اردو حاشہ:
1؎:
یہ خطاب زکاۃ وصول کر نے والے عمال اور ان لوگوں کو ہے جو زکاۃ کی وصولی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں،
تہائی یا چوتھائی حصہ چھوڑ دینے کا حکم اس لیے ہے تاکہ مالک پھل توڑتے وقت اپنے اعزاء و اقرباء اور اپنے ہمسایوں مسافروں وغیرہ پر خرچ کر سکے اور اس کی وجہ سے وہ کسی حرج اور تنگی میں مبتلا نہ ہو۔

نوٹ:
(سند میں عبدالرحمن بن مسعود لین الحدیث ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 643   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 497  
´پھلوں میں زکاۃ کا بیان`
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا جب تم غلہ کا تخمینہ اور اندازہ لگاؤ تو ایک تہائی چھوڑ دیا کرو اگر تہائی نہیں چھوڑ سکتے تو چوتھائی چھوڑ دیا کرو۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 497]
لغوی تشریح:
«اِذَا خَرَصْتُمْ» یہ خطاب زکاۃ وصول کرنے والے عاملین اور سرکاری نمائندوں کو ہے۔ «خرص» اندازہ اور تخمینہ لگانے کو کہتے ہیں۔ یہاں «خرص» سے مراد انگور اور تر کھجور کا درختوں پر اندازہ لگانا ہے۔ ان دونوں کا اندازہ لگانے کی صورت یہ ہے کہ جب انگور اور کھجور میں مٹھاس پیدا ہو جائے تو اندازہ لگانے والا درخت کے گرد چکر لگائے، سارے پھلوں پر سرسری نظر دوڑا کر اندازہ لگائے کہ جب یہ انگور خشک ہو کر کشمکش کی صورت اختیار کر لیں گے تو اس وقت ان کی مقدار اور وزن اتنا رہ جائے گا اور یہ کھجور جب خشک ہو گی تو اتنی مقدار میں باقی رہ جائے گی اور اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے تو اس کے اندازے کے مطابق زکاۃ لی جائے گی۔ اس تخمینہ اور اندازہ لگانے کے لیے ایک ہی آدمی کافی ہے بشرطیکہ وہ منصف مزاج اور عادل ہوا اور اس کام میں مہارت رکھتا ہو۔
«فَخُذُوا» پس تخمینے کے مطابق تم زکاۃ وصول کر لو۔ «خُذُوا» امر کا صیغہ ہے اور «اخذ» سے ماخوذ ہے۔
«وَدَعُو الثُّلُثَ . . . . الخ» مال کے مالکوں کے لیے تخمینہ لگائی گئی مقدار میں سے ایک تہائی حصہ چھوڑ دو۔
ایک قول یہ ہے کہ تیسرا یا چوتھا حصہ مالکوں کے لیے اس لیے چھوڑا جاتا ہے کہ مالک خود اپنے اعزہ و اقرباء، ہمسایوں اور مانگنے والے فقراء مساکین پر صدقہ و خیرات کر سکے اور اس سلسلے میں، یعنی واجب مقدار سے زائد صدقہ کرنے میں اسے تنگی اور حرج میں نہیں پڑنا چاہیے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ تہائی یا چوتھائی حصہ عشر نکالنے سے پہلے اسی اصل مال سے الگ رکھا جائے گا تاکہ مالک پر وسعت و سہولت ہو۔ وہ خود بھی اس میں سے کھا سکے، پکے ہوئے پھل کو بیچ سکے اور اہل و عیال، پڑوسی اور مہمانوں کو ترجیح دیتے ہوئے ان پر خرچ کر سکے۔ یہ مقدار جس کے چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، ان سبزیوں کے قائم مقام ہو گی جن پر زکاۃ نہیں۔

فوائد:
یہ حدیث شریعت اسلامیہ کو خوبیوں اور محاسن میں سے ہے۔
صاحب سبل السلام نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے، یہ تو معمول کی بات ہے کہ جب پھل پک جاتا ہے تو پھل کا مالک خود اور اس کے اہل و عیال اس میں سے کھاتے ہیں اور کبھی دوسرے لوگوں کو بھی کھلاتے ہیں، لہٰذا یہ مقدار ذخیرہ نہیں ہو سکتی۔ اور عرف عام میں خود کھانے اور دوسروں کو کھلانے کو ان سبزیوں کی جگہ تصور کیا جاتا ہے جو ذخیرہ کر کے رکھی نہیں جا سکتیں۔

راوی حدیث:
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ، سہل کے سین پر فتحہ اور ہا ساکن ہے۔ ان کا نام عبداللہ یا عامر بن ساعدہ بن عامر انصاری خزرجی مدنی ہے۔ صغار صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ۳ ہجری میں پیدا ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی اور ان کا شمار اہل مدینہ میں ہوتا ہے اور حضرت معصب بن زبیر کے عہد میں مدینہ ہی میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 497   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1605  
´درخت پر پھل کے تخمینہ لگانے کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ ہماری مجلس میں تشریف لائے، انہوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب تم پھلوں کا تخمینہ کر لو تب انہیں کاٹو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو اگر تم ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو ایک چوتھائی ہی چھوڑ دیا کرو ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اندازہ لگانے والا ایک تہائی بیج بونے وغیرہ جیسے کاموں کے لیے چھوڑ دے گا، اس کی زکاۃ نہیں لے گا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1605]
1605. اردو حاشیہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔مگر دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔اور پھلوں کا اندازہ لگانے والا تیسرا یا چوتھا حصہ اس لئے چھوڑے کیونکہ یہ سب نظر کا معاملہ ہوتا ہے۔اور اس میں کمی بیشی کا احتمال یقینی ہے۔نیز کچھ پھل ضائع بھی ہوجاتا ہے۔اور کچھ جانور وغیرہ کھا جاتے ہیں۔اور کچھ مالک بھی غریبوں مسکینوں وغیرہ کودیتا ہے۔لہذا ثلث یا ربع چھوڑنے میں ان سب کی تلافی ہوجائےگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1605   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2493  
´درخت کے پھل کا تخمینہ لگانے والا کتنا چھوڑ دے؟`
سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم درختوں پر پھلوں کا تخمینہ لگاؤ تو جو تخمینہ لگاؤ اسے لو، اور اس میں سے ایک تہائی چھوڑ دو ۱؎ اور اگر تم نہ لے سکو یا تہائی نہ چھوڑ سکو (شعبہ کو شک ہو گیا ہے) تو تم چوتھائی چھوڑ دو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2493]
اردو حاشہ:
(1) حکومت جن فصلوں یا پھلوں کا عشر وصول کرتی تھی، ان میں طریقہ کار یہ تھا کہ فصل یا پھل پکنے سے پہلے سمجھ دار ماہر لوگ اندازہ لگانے کے لیے بھیجے جاتے جو یہ اندازہ لگاتے کہ فلاں آدمی کی فصل یا پھل اتنا ہونے کی توقع ہے۔ اسے خرص کہا جاتا تھا۔
(2) خرص کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ پھل یا فصل پکنے کے بعد مالک کھانے کھلانے میں آزاد ہوتا تھا۔ جو چاہے کھائے، دوسروں کو کھلائے۔ حکومت کٹائی کے موقع پر اندازے (خرص کے مطابق عشر وصول کر لیتی تھی۔ اس طریقے سے نہ مالک کو تنگی ہوتی تھی اور نہ حکومت کو اعتراض کا موقع ملتا تھا۔
(3) احناف خرص کے قائل نہیں کہ پتا نہیں اندازہ صحیح ہو یا نہ ہو۔ اس طرح کسی پر ظلم بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا یہ سود والی علت کی بنا پر منع ہے، مگر وہ یہ بات نظر انداز کر گئے کہ اس میں فریقین کا فائدہ ہے۔ باقی رہا ظلم کا امکان تو اس کا حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے الفاظ میں خود ہی تجویز فرما دیا ہے کہ اندازہ لگانے کے بعد تیسرے یا چوتھے حصے کی رعایت دی جائے، نیز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں اور خلفائے راشدین اپنے اپنے ادوار مبارکہ میں اور عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ سود یا جوئے کے مشابہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کا اقدام نہ فرماتے، اور نہ اس کی اجازت ہی مرحمت فرماتے۔ کیا مانعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ دین کے خیر خواہ یا ان سے زیادہ علم والے ہیں؟ دراصل شریعت لوگوں کی تنگی کا بھی لحاظ رکھتی ہے، جیسے بلی کے جوٹھے کا پلید نہ ہونا اس کی واضح دلیل ہے۔
(4) تیسرا حصہ چھوڑ دو۔ کیونکہ ضروری نہیں اندازے کے مطابق ہی پیداوار ہو۔ جانور کھا جاتے ہیں، ناگہانی آفات سے فصل اور پھل کا نقصان ہو سکتا ہے، لوگ اور سائلین بھی کمی کا موجب بن سکتے ہیں، اس لیے مالک کو رعایت چاہیے۔ چونکہ حالات مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا تیسرے یا چوتھے حصے یا ان کے مابین کمی کا اختیار دیا تاکہ کسی پر زیادتی نہ ہو۔ اگر زیادہ نقصان ہو جائے تو اس سے زیادہ بھی رعایت دینی پڑے گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2493   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.