كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل 6. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَخْذِ خِيَارِ الْمَالِ فِي الصَّدَقَةِ باب: صدقے میں عمدہ مال لینے کی کراہت کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی الله عنہ کو یمن (کی طرف اپنا عامل بنا کر) بھیجا اور ان سے فرمایا: ”تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو، تم انہیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر رات اور دن میں پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء و مساکین کو لوٹا دی جائے گی ۱؎، اگر وہ اسے مان لیں تو تم ان کے عمدہ مال لینے سے اپنے آپ کو بچانا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں صنابحی رضی الله عنہ ۲؎ سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 1 (1395)، و41 (1458)، والمظالم 10 (2448)، والمغازی 60 (4347)، والتوحید 1 (7372)، صحیح مسلم/الإیمان 7 (19)، سنن ابی داود/ الزکاة 4 (1584)، سنن النسائی/الزکاة 1 (2437)، و46 (2523)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 1 (1783)، (تحفة الأشراف: (6511)، مسند احمد (1/233)، سنن الدارمی/الزکاة 1 (1655)، ویأتي آخرہ عند المؤلف في البر والصلة 68 (2014) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ جس جگہ سے وصول کی جائے وہیں کے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں زکاۃ تقسیم کی جائے، مقامی فقراء سے اگر زکاۃ بچ جائے تب وہ دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے، بظاہر اس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے، لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے «أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث كانوا» اور اس کے تحت یہی حدیث ذکر کی ہے اور «فقراؤهم» میں «هم» کی ضمیر کو مسلمین کی طرف لوٹایا ہے یعنی مسلمانوں میں سے جو بھی محتاج ہو اسے زکاۃ دی جائے، خواہ وہ کہیں کا ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1783)
|