(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن سعيد بن ابي سعيد، عن عبد الرحمن بن بجيد، عن جدته ام بجيد، وكانت ممن بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم، انها قالت: يا رسول الله، إن المسكين ليقوم على بابي فما اجد له شيئا اعطيه إياه، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن لم تجدي شيئا تعطينه إياه إلا ظلفا محرقا فادفعيه إليه في يده ". قال: وفي الباب عن علي، وحسين بن علي، وابي هريرة، وابي امامة. قال ابو عيسى: حديث ام بجيد حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بُجَيْدٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ بُجَيْدٍ، وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْمِسْكِينَ لَيَقُومُ عَلَى بَابي فَمَا أَجِدُ لَهُ شَيْئًا أُعْطِيهِ إِيَّاهُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ لَمْ تَجِدِي شَيْئًا تُعْطِينَهُ إِيَّاهُ إِلَّا ظِلْفًا مُحْرَقًا فَادْفَعِيهِ إِلَيْهِ فِي يَدِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ بُجَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبدالرحمٰن بن بجید کی دادی ام بجید حواء رضی الله عنہا (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور اسے دینے کے لیے میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی۔ (تو میں کیا کروں؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اگر اسے دینے کے لیے تمہیں کوئی جلی ہوئی کھر ہی ملے تو وہی اس کے ہاتھ میں دے دو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام بجید رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، حسین بن علی، ابوہریرہ اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 33 (1667)، سنن النسائی/الزکاة 70 (2566)، (تحفة الأشراف: 1835)، مسند احمد (6/382- 383)، وأخرجہ موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ 5 (8)، و مسند احمد (704)، و (6/435)، من غیر ہذا الطریق والسیاق (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس میں مبالغہ ہے، مطلب یہ ہے کہ سائل کو یوں ہی مت لوٹاؤ جو بھی میسر ہو اسے دے دو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 29)، صحيح أبي داود (1467)