سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book on Zakat
2. باب مَا جَاءَ إِذَا أَدَّيْتَ الزَّكَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ
باب: زکاۃ ادا کرنے سے اپنے اوپر عائد فریضہ کے ادا ہو جانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About: When You Pay The Zakat You Have Fulfilled What Is Required Of You
حدیث نمبر: 618
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص الشيباني البصري، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرنا عمرو بن الحارث، عن دراج، عن ابن حجيرة، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا اديت زكاة مالك فقد قضيت ما عليك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير وجه انه ذكر الزكاة، فقال رجل: يا رسول الله هل علي غيرها؟ فقال: " لا إلا ان تتطوع ". وابن حجيرة هو عبد الرحمن بن حجيرة المصري.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ ابْنِ حُجَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَدَّيْتَ زَكَاةَ مَالِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ أَنَّهُ ذَكَرَ الزَّكَاةَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ فَقَالَ: " لَا إِلَّا أَنْ تَتَطَوَّعَ ". وَابْنُ حُجَيْرَةَ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُجَيْرَةَ الْمَصْرِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کر دی تو جو تمہارے ذمہ فریضہ تھا اسے تم نے ادا کر دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری اور سندوں سے بھی مروی ہے کہ آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا، تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل کچھ دو (یہ حدیث آگے آ رہی ہے)۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزکاة 3 (1788)، (تحفة الأشراف: 13591) (حسن) (دیکھئے ”تراجع الالبانی“ حدیث رقم: 99)»

وضاحت:
۱؎: یعنی مال کے حق میں سے تمہارے اوپر مزید کوئی اور ضروری حق نہیں کہ اس کے نکالنے کا تم سے مطالبہ کیا جائے، رہے صدقہ فطر اور دوسرے ضروری نفقات تو یہ مال کے حقوق میں سے نہیں ہیں، ان کے وجوب کا سبب نفس مال نہیں بلکہ دوسری وقتی چیزیں ہیں مثلاً قرابت اور زوجیت وغیرہ بعض نے کہا کہ ان واجبات کا وجوب زکاۃ کے بعد ہوا ہے اس لیے ان سے اس پر اعتراض درست نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1788) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (396)، ضعيف الجامع الصغير (312) //
حدیث نمبر: 619
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا علي بن عبد الحميد الكوفي، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن انس، قال: كنا نتمنى ان ياتي الاعرابي العاقل، فيسال النبي صلى الله عليه وسلم ونحن عنده، فبينا نحن كذلك إذ اتاه اعرابي فجثا بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد إن رسولك اتانا فزعم لنا انك تزعم ان الله ارسلك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فبالذي رفع السماء وبسط الارض ونصب الجبال آلله ارسلك؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا خمس صلوات في اليوم والليلة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال: " نعم "، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا صوم شهر في السنة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " صدق "، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا في اموالنا الزكاة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " صدق "، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا الحج إلى البيت من استطاع إليه سبيلا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نعم "، فقال: والذي بعثك بالحق لا ادع منهن شيئا ولا اجاوزهن، ثم وثب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن صدق الاعرابي دخل الجنة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وقد روي من غير هذا الوجه عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، سمعت محمد بن إسماعيل، يقول: قال بعض اهل العلم: فقه هذا الحديث ان القراءة على العالم والعرض عليه جائز مثل السماع. واحتج بان الاعرابي عرض على النبي صلى الله عليه وسلم، فاقر به النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كُنَّا نَتَمَنَّى أَنْ يَأْتِيَ الْأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَثَا بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَسُولَكَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَاءَ وَبَسَطَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرٍ فِي السَّنَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَدَقَ "، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّكَاةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَدَقَ "، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَى الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَدَعُ مِنْهُنَّ شَيْئًا وَلَا أُجَاوِزُهُنَّ، ثُمَّ وَثَبَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْقِرَاءَةَ عَلَى الْعَالِمِ وَالْعَرْضَ عَلَيْهِ جَائِزٌ مِثْلُ السَّمَاعِ. وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْأَعْرَابِيَّ عَرَضَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی (دیہاتی) آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ۲؎ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، یہ صحیح ہے، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بلند کیا، زمین اور پہاڑ نصب کئے۔ کیا اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس نے کہا: آپ کا قاصد ہم سے کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض ہیں (کیا ایسا ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنایا ہے! کیا آپ کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر سال میں ایک ماہ کے صیام فرض ہیں (کیا یہ صحیح ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں وہ (سچ کہہ رہا ہے) اعرابی نے مزید کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (دیا ہے)، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر ہمارے مالوں میں زکاۃ واجب ہے (کیا یہ صحیح ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (اس نے سچ کہا)۔ اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، (دیا ہے) اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم میں سے ہر اس شخص پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو (کیا یہ سچ ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، (حج فرض ہے) اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (دیا ہے) تو اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا: میں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ میں اس میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا ۳؎، پھر یہ کہہ کر وہ واپس چل دیا تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اعرابی نے سچ کہا ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث انس رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا: وہ کہہ رہے تھے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شاگرد کا استاذ کو پڑھ کر سنانا استاذ سے سننے ہی کی طرح ہے ۴؎ انہوں نے استدلال اس طرح سے کیا ہے کہ اعرابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلومات پیش کیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 6 (تعلیقا عقب حدیث رقم: 63)، صحیح مسلم/الإیمان 3 (12)، سنن النسائی/الزکاة 1 (2093)، (تحفة الأشراف: 404)، مسند احمد (3/143، 193)، سنن الدارمی/الطہارة 1 (656) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ ہمیں سورۃ المائدہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کا علم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔
۲؎: اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔
۳؎: اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے، مسلم کی روایت میں «والذي بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص» کے الفاظ آئے ہیں۔
۴؎: یعنی «سماع من لفظ الشیخ» کی طرح «القراءۃ علی الشیخ» (استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا) بھی جائز ہے، مولف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ «قراءۃ علی الشیخ» جائز نہیں، صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ «سماع من لفظ الشیخ» (استاذ کی زبان سے سننے) کا ہے، اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت «سمعت، سمعنا، حدثنا، حدثني، أخبرنا، أخبرني، أنبأنا، أنبأني» کے صیغے استعمال کرتا ہے، اس کے برخلاف «قراءۃ علی الشیخ» (استاذ پر پڑھنے) کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد «قرأت على فلان» يا «قري على فلان وأنا أسمع»، يا «حدثنا فلان قرائة عليه» کہہ کر روایت کرتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج إيمان ابن أبي شيبة (4 / 5)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.