كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل 11. باب مَا جَاءَ لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ جِزْيَةٌ باب: مسلمانوں پر جزیہ نہیں ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سر زمین پر دو قبلے ہونا درست نہیں ۱؎ اور نہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الخراج 28 (3032)، (تحفة الأشراف: 5399)، مسند احمد (1/285) (ضعیف) (سند میں قابوس ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: ایک سر زمیں پر دو قبلے کا ہونا درست نہیں کا مطلب یہ ہے کہ ایک سر زمین پر دو دین والے بطور برابری کے نہیں رہ سکتے کوئی حاکم ہو گا کوئی محکوم۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1244) // 1257 //، الضعيفة (4379) // ضعيف الجامع الصغير (6239)، ضعيف أبي داود (655 / 3032) نحوه //
اس سند سے بھی قابوس سے اسی طرح مروی ہے۔
۱- ابن عباس کی حدیث قابوس بن ابی ظبیان سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، ۲- اس باب میں سعید بن زید اور حرب بن عبیداللہ ثقفی کے دادا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ نصرانی جب اسلام قبول کر لے تو اس کی اپنی گردن کا جزیہ معاف کر دیا جائے گا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «ليس على المسلمين عشور» ”مسلمانوں پر عشر نہیں ہے“ کا مطلب بھی گردن کا جزیہ ہے، اور حدیث میں بھی اس کی وضاحت کر دی گئی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: ”عشر صرف یہود و نصاریٰ پر ہے، مسلمانوں پر کوئی عشر نہیں“ ۱؎۔ تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
وضاحت: ا؎: یہ حدیث سنن ابی داود میں ہے اس حدیث کا تشریح ”المرقاۃ شرح المشکاۃ“ اور ”عون المعبود“ میں دیکھ لیں، کچھ وضاحت اس مقام پر ”تحفۃ الأحوذی“ میں بھی آ گئی ہے، اور عشر سے مراد ٹیکس ہے۔ قال الشيخ الألباني: // ضعيف الجامع الصغير (2050)، المشكاة (4039)، ضعيف أبي داود برقم (660 / 2046)، يرويه الجميع عن حرب بن عبيد الله، عن جده أبي أمه، عن أبيه //
|