كتاب البيعة کتاب: بیعت کے احکام و مسائل 15. بَابُ: ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ فِي انْقِطَاعِ الْهِجْرَةِ باب: ہجرت کے ختم ہو جانے کے سلسلے میں اختلاف روایات کا بیان۔
یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے والد کے ساتھ آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے باپ سے ہجرت پر بیعت لے لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ان سے جہاد پر بیعت لوں گا، (کیونکہ) ہجرت تو ختم ہو چکی ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4165 (ضعیف) (اس کے راوی ’’عمرو بن عبدالرحمن‘‘ لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! لوگ کہتے ہیں کہ جنت میں مہاجر کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہو گا، آپ نے فرمایا: ”فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں ہے ۱؎، البتہ جہاد ۲؎ اور نیت ہے، لہٰذا جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل پڑو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 4949)، مسند احمد (3/401 و6/465) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ حکم اہل مکہ کے لیے خاص تھا کہ اب مکہ سے مدینہ ہجرت کی ضرورت باقی نہیں رہی، ورنہ اس کے علاوہ جہاں بھی ایسی ہی صورت پیش آئے گی ہجرت واجب ہو گی (دیکھئیے حدیث نمبر ۴۱۷۷) إلا یہ کہ وہاں کے ملکی حالات و قوانین اجازت نہ دیتے ہوں، جیسے اس زمانہ میں اب یہ ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے کہ ایک ملک کے شہری کو کوئی دوسرا ملک قبول کر لے تو ہجرت واجب ہوتے ہوئے بھی آدمی اپنے وطن میں رہنے پر مجبور ہے، یہ مجبوری کی حالت ہے۔ ۲؎: یعنی جہاد کی خاطر گھر بار چھوڑنا یہ بھی ایک طرح کی ہجرت ہے، اسی طرح خلوص نیت سے محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جیسے دینی تعلیم وغیرہ کے لیے گھر سے دور جانا یہ بھی ایک طرح کی ہجرت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز فرمایا: ”ہجرت تو (باقی) نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت ہے، لہٰذا جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل پڑو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید 10 (1834)، الجہاد 1 (2783)، 27 (2825)، 194(3077)، صحیح مسلم/الإمارة 20 (1353)، سنن ابی داود/الجہاد 2 (2480)، سنن الترمذی/السیر 33 (1590)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 9 (2773) (الجزء الأخیرفحسب)، (تحفة الأشراف: 5748)، مسند احمد (1/226، 266، 316، 355)، سنن الدارمی/السیر 69 (2554) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد کوئی ہجرت نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10653) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن وقدان سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ ہم میں سے ہر ایک کی کچھ غرض تھی، میں سب سے آخر میں آپ کے پاس داخل ہوا اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول! میں اپنے پیچھے کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آ رہا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہجرت ختم ہو گئی تو آپ نے فرمایا: ”ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کفار و مشرکین سے جنگ ہوتی رہے گی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8975) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پچھلی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہو گئی، اور اس حدیث میں ہے کہ جب تک دنیا میں اسلام اور کفر کی لڑائی جاری رہے گی تب تک ہجرت جاری رہے گی، دونوں میں کوئی تضاد و اختلاف اور تعارض نہیں ہے، وہاں مراد ہے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی کیونکہ مکہ فتح ہو کر، اسلامی حکومت میں شامل ہو چکا ہے، رہی دارالحرب سے ہجرت کی بات تو جس طرح فتح مکہ سے پہلے مکہ کے دارالحرب ہونے کی وجہ سے وہاں سے ہجرت ضروری تھی، یہاں بھی ضروری رہے گی، اس بابت اور بھی واضح احادیث مروی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ میرے ساتھی آپ کے پاس داخل ہوئے تو آپ نے ان کی ضرورت پوری کی، میں سب سے آخر میں داخل ہوا تو آپ نے فرمایا: ”تمہاری کیا ضرورت ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہجرت کب ختم ہو گی؟ فرمایا: ”جب تک کفار سے جنگ ہوتی رہے گی ہجرت ختم نہ ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|