كتاب البيعة کتاب: بیعت کے احکام و مسائل 9. بَابُ: الْبَيْعَةِ عَلَى الْجِهَادِ باب: جہاد پر بیعت کا بیان۔
یعلیٰ بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فتح مکہ کے دن ابوامیہ کو لے کر آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے باپ نے ہجرت پر بیعت کر لی ہے۔ تو آپ نے فرمایا: ”میں ان سے جہاد پر بیعت لیتا ہوں اور ہجرت کا سلسلہ تو بند ہو گیا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 11843)، وأعادہ المؤلف برقم 4173 (ضعیف) (اس کے راوی ’’عمرو بن عبدالرحمن‘‘ لین الحدیث ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مکہ سے ہجرت کا سلسلہ بند ہو گیا کیونکہ مکہ تو دارالاسلام بن چکا ہے، البتہ دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اور اس وقت آپ کے اردگرد صحابہ کی ایک جماعت تھی): ”تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنے بچوں کو قتل نہیں کرو گے، اور اپنی طرف سے گھڑ کر کسی پر بہتان نہیں لگاؤ گے، کسی معروف (بھلی بات) میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ (بیعت کے بعد) جو ان باتوں کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، تم میں سے کسی نے کوئی غلطی کی ۱؎ اور اسے اس کی سزا مل گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہو گی اور جس نے غلطی کی اور اللہ نے اسے چھپائے رکھا تو اس کا معاملہ اللہ کے پاس ہو گا، اگر وہ چاہے تو معاف کر دے اور چاہے تو سزا دے۔ احمد بن سعید نے اسے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 11 (18)، مناقب الأنصار 43 (3892)، المغازي 12 (3999)، تفسیرالممتحنة 3 (4894)، الحدود 8 (6784)، 14 (6801)، الدیات 2 (6873)، الأحکام 49 (7213)، التوحید31 (7468)، صحیح مسلم/الحدود 10 (1709)، سنن الترمذی/الحدود 12 (1439)، (تحفة الأشراف: 5094)، مسند احمد (5/314)، سنن الدارمی/السیر 17 (2497)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 1483، و4215، و5005 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی شرک کے علاوہ، کیونکہ توبہ کے سوا شرک کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ ۲؎: یہ اختلاف اس طرح ہے کہ احمد بن سعید کی روایت (جو آگے آ رہی ہے) میں صالح بن کیسان اور زہری کے درمیان حارث بن فضیل کا اضافہ ہے، اور زہری اور عبادہ بن صامت کے درمیان ابوادریس خولانی کا اضافہ نہیں ہے، اس اختلاف سے اصل حدیث کی صحت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم مجھ سے ان باتوں پر بیعت نہیں کرو گے جن پر عورتوں نے بیعت کی ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، نہ اپنے بچوں کو قتل کرو گے اور نہ خود سے گھڑ کر بہتان لگاؤ گے، اور نہ کسی معروف (اچھے کام) میں میری نافرمانی کرو گے؟“، ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! چنانچہ ہم نے ان باتوں پر آپ سے بیعت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس کے بعد کوئی گناہ کیا اور اسے اس کی سزا مل گئی تو وہی اس کا کفارہ ہے، اور جسے اس کی سزا نہیں ملی تو اس کا معاملہ اللہ کے پاس ہے، اگر چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا اور چاہے گا تو سزا دے گا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
|