(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد بن حنبل، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، اخبرنا ايوب، عن عكرمة، ان عليا عليه السلام احرق ناسا ارتدوا عن الإسلام، فبلغ ذلك ابن عباس فقال: لم اكن لاحرقهم بالنار، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تعذبوا بعذاب الله وكنت قاتلهم بقول رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من بدل دينه فاقتلوه، فبلغ ذلك عليا عليه السلام، فقال: ويح ابن عباس". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَام أَحْرَقَ نَاسًا ارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ لِأُحْرِقَهُمْ بِالنَّارِ، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ وَكُنْتُ قَاتِلَهُمْ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: وَيْحَ ابْنِ عَبَّاسٍ".
عکرمہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو جو اسلام سے پھر گئے تھے آگ میں جلوا دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا: مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ میں انہیں جلاؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم انہیں وہ عذاب نہ دو جو اللہ کے ساتھ مخصوص ہے“ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی رو سے انہیں قتل کر دیتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کر لے اسے قتل کر دو“ پھر جب علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا: اللہ ابن عباس کی ماں پر رحم فرمائے انہوں نے بڑی اچھی بات کہی۔
Ikrimah said: Ali burned some people who retreated from islam. When Ibn Abbas was informed of it, he said: If it had been I, I would not have then burned, for the Messenger of Allah ﷺ said: Do not inflict Allah’s punishment on anyone, but would have had killed them on account of the statement of the Messenger of Allah ﷺ. The Messenger said: Kill those who change their religion. When ‘All was informed about it he said: How truly Ibn Abbas said!
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4337
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، اخبرنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يحل دم رجل مسلم يشهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله إلا بإحدى ثلاث: الثيب الزاني، والنفس بالنفس، والتارك لدينه المفارق للجماعة". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ دَمُ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان آدمی کا جو صرف اللہ کے معبود ہونے، اور میرے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو خون حلال نہیں، سوائے تین صورتوں کے: یا تو وہ شادی شدہ زانی ہو، یا اس نے کسی کا قتل کیا ہو تو اس کو اس کے بدلہ قتل کیا جائے گا، یا اپنا دین چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو گیا ہو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الدیات 6 (6878)، صحیح مسلم/القسامة 6 (1676)، سنن الترمذی/الدیات 10 (1402)، سنن النسائی/المحاربة 5 (4021)، سنن ابن ماجہ/الحدود 1 (2534)، (تحفة الأشراف: 9567)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/382، 428، 444، 465)، دی/ الحدود 2 (2344) (صحیح)»
Abdullah (bin Masud) reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: The blood of a Muslim man who testifies that there is no god but Allah and that I am the Messenger of Allah should not be lawfully shed but only for one of three reasons: married fornicator, soul for soul, and one who deserts his religion separating himself from the community.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4338
(مرفوع) حدثنا محمد بن سنان الباهلي، حدثنا إبراهيم بن طهمان، عن عبد العزيز بن رفيع، عن عبيد بن عمير، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يحل دم امرئ مسلم يشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله إلا بإحدى ثلاث: رجل زنى بعد إحصان فإنه يرجم، ورجل خرج محاربا لله ورسوله فإنه يقتل او يصلب او ينفى من الارض، او يقتل نفسا فيقتل بها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ فَإِنَّهُ يُرْجَمُ، وَرَجُلٌ خَرَجَ مُحَارِبًا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ، أَوْ يَقْتُلُ نَفْسًا فَيُقْتَلُ بِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان شخص کا خون جو صرف اللہ کے معبود ہونے اور میرے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو حلال نہیں سوائے تین صورتوں کے ایک وہ شخص جو شادی شدہ ہو اور اس کے بعد زنا کا ارتکاب کرے تو وہ رجم کیا جائے گا، دوسرے وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے نکلا ہو تو وہ قتل کیا جائے گا، یا اسے سولی دے دی جائے گی، یا وہ جلا وطن کر دیا جائے گا، تیسرے جس نے کسی کو قتل کیا ہو تو اس کے بدلے وہ قتل کیا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المحاربة 9 (4053)، (تحفة الأشراف: 16326)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/181، 214) (صحیح)»
Narrated Aishah, Ummul Muminin: The Messenger of Allah ﷺ Said: The blood of a Muslim man who testifies that there is no god but Allah and that Muhammad is Allah's Messenger should not lawfully be shed except only for one of three reasons: a man who committed fornication after marriage, in which case he should be stoned; one who goes forth to fight with Allah and His Messenger, in which case he should be killed or crucified or exiled from the land; or one who commits murder for which he is killed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4339
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، ومسدد، قالا: حدثنا يحيى بن سعيد، قال مسدد، حدثنا قرة بن خالد، حدثنا حميد بن هلال، حدثنا ابو بردة، قال:قال ابو موسى: اقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم ومعي رجلان من الاشعريين، احدهما عن يميني والآخر عن يساري فكلاهما سال العمل والنبي صلى الله عليه وسلم ساكت فقال:" ما تقول يا ابا موسى او يا عبد الله بن قيس، قلت: والذي بعثك بالحق ما اطلعاني على ما في انفسهما وما شعرت انهما يطلبان العمل وكاني انظر إلى سواكه تحت شفته قلصت، قال: لن نستعمل او لا نستعمل على عملنا من اراده ولكن اذهب انت يا ابا موسى او يا عبد الله بن قيس فبعثه على اليمن ثم اتبعه معاذ بن جبل، قال: فلما قدم عليه معاذ قال: انزل والقى له وسادة وإذا رجل عنده موثق قال: ما هذا؟ قال: هذا كان يهوديا فاسلم ثم راجع دينه دين السوء، قال: لا اجلس حتى يقتل قضاء الله ورسوله، قال: اجلس نعم، قال: لا اجلس حتى يقتل قضاء الله ورسوله ثلاث مرات فامر به، فقتل ثم تذاكرا قيام الليل فقال احدهما: معاذ بن جبل اما انا فانام واقوم او اقوم وانام وارجو في نومتي ما ارجو في قومتي". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ، قَالَ:قَالَ أَبُو مُوسَى: أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ، أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِي وَالْآخَرُ عَنْ يَسَارِي فَكِلَاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاكِتٌ فَقَالَ:" مَا تَقُولُ يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ قَلَصَتْ، قَالَ: لَنْ نَسْتَعْمِلَ أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ ثُمَّ أَتْبَعَهُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ مُعَاذٌ قَالَ: انْزِلْ وَأَلْقَى لَهُ وِسَادَةً وَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ مُوثَقٌ قَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ ثُمَّ رَاجَعَ دِينَهُ دِينَ السُّوءِ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، قَالَ: اجْلِسْ نَعَمْ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَأَمَرَ بِهِ، فَقُتِلَ ثُمَّ تَذَاكَرَا قِيَامَ اللَّيْلِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ أَمَّا أَنَا فَأَنَامُ وَأَقُومُ أَوْ أَقُومُ وَأَنَامُ وَأَرْجُو فِي نَوْمَتِي مَا أَرْجُو فِي قَوْمَتِي".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو شخص تھے، ایک میرے دائیں طرف تھا دوسرا بائیں طرف، تو دونوں نے آپ سے عامل کا عہدہ طلب کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر فرمایا: ”ابوموسیٰ!“ یا فرمایا: ”عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، ان دونوں نے مجھے اس چیز سے آگاہ نہیں کیا تھا جو ان کے دل میں تھا، اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ آپ سے عامل بنائے جانے کا مطالبہ کریں گے، گویا میں اس وقت آپ کی مسواک کو دیکھ رہا ہوں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسوڑھے کے نیچے تھی اور مسوڑھا اس کی وجہ سے اوپر اٹھا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم اپنے کام پر اس شخص کو ہرگز عامل نہیں بنائیں گے یا عامل نہیں بناتے جو عامل بننے کی خواہش کرے، لیکن اے ابوموسیٰ!“ یا آپ نے فرمایا: ”اے عبداللہ بن قیس! اس کام کے لیے تم جاؤ“ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھیج دیا، پھر ان کے پیچھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھیجا، جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: اترو، اور ایک گاؤ تکیہ ان کے لیے لگا دیا، تو اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی ان کے پاس بندھا ہوا ہے، معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کیسا آدمی ہے؟ ابوموسیٰ نے کہا: یہ ایک یہودی تھا جو اسلام لے آیا تھا، لیکن اب پھر وہ اپنے باطل دین کی طرف پھر گیا ہے، معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے مطابق جب تک یہ قتل نہ کر دیا جائے میں نہیں بیٹھ سکتا، ابوموسیٰ نے کہا: اچھا بیٹھئیے، معاذ نے پھر کہا: اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی رو سے جب تک وہ قتل نہ کر دیا جائے میں نہیں بیٹھ سکتا، آپ نے تین بار ایسا کہا، چنانچہ انہوں نے اس کے قتل کا حکم دیا، وہ قتل کر دیا گیا، (پھر وہ بیٹھے) پھر ان دونوں نے آپس میں قیام اللیل (تہجد کی نماز) کا ذکر کیا تو ان دونوں میں سے ایک نے غالباً وہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ تھے کہا: رہا میں، تو میں سوتا بھی ہوں، اور قیام بھی کرتا ہوں، یا کہا قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور بحالت نیند بھی اسی ثواب کی امید رکھتا ہوں جو بحالت قیام رکھتا ہوں۔
Abu Burdah said on the authority of Abu Musa: I went to the Prophet ﷺ while two men who were Ash’ arIs were with me. One of them was on my right and the other on my left side. Bothe of them asked him for employment. The prophet ﷺ was silent. He asked: What do you say Abu Musa, or Abdullah bin Qais (Abu Musa’s name)? I replied: By him who has sent you with truth, they did not inform me of what they had in their hearts, and I did not know that they would ask for an employment. He said: I have the scene before my eyes that he had his toothstick below his lip which receded. He (the prophet) said: We will never or will not put in charge of our work anyone who asks for it. But go, ye, Abu Musa, or Abdullah bin Qais. He then sent him as a Governor of the Yemen, After him he sent Muadh bin Jabal. When Muadh came to him, he said: come down, and he put a cushion for him. He saw that a man was chained with him. He asked: What is this? He replied: He was a Jew and he accepted Islam. He then converted to his religion, an evil religion. He said: I will not sit until he is killed according to the decision of Allah and his Messenger ﷺ. He said: Yes, be seated. He said: I will not sit until he is killed according to the decision of Allah and his Messenger ﷺ. He said it three times. He then commanded for it and he was killed. Both of them then discussed the question of prayer and vigilance at night. One of them, probably Muadh, said: So far as I am concerned, I sleep and I keep vigilance: I keep vigilance and I sleep: I hope for the same reward for my sleep as for my vigilance.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4340
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس معاذ رضی اللہ عنہ آئے، میں یمن میں تھا، ایک یہودی نے اسلام قبول کر لیا، پھر وہ اسلام سے مرتد ہو گیا، تو جب معاذ رضی اللہ عنہ آئے کہنے تو لگے: میں اس وقت تک اپنی سواری سے نہیں اتر سکتا جب تک وہ قتل نہ کر دیا جائے چنانچہ وہ قتل کر دیا گیا، اس سے پہلے اسے توبہ کے لیے کہا جا چکا تھا۔
Narrated Muadh ibn Jabal: Abu Musa said: Muadh came to me when I was in the Yemen. A man who was Jew embraced Islam and then retreated from Islam. When Muadh came, he said: I will not come down from my mount until he is killed. He was then killed. One of them said: He was asked to repent before that.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4341
(موقوف) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا حفص، حدثنا الشيباني، عن ابي بردة بهذه القصة، قال: فاتي ابو موسى برجل قد ارتد عن الإسلام، فدعاه عشرين ليلة او قريبا منها، فجاء معاذ فدعاه فابى، فضرب عنقه، قال ابو داود: ورواه عبد الملك بن عمير، عن ابي بردة 63 لم يذكر الاستتابة ورواه ابن فضيل، عن الشيباني، عن سعيد بن ابي بردة، عن ابيه، عن ابي موسى لم يذكر فيه الاستتابة. (موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَأُتِيَ أَبُو مُوسَى بِرَجُلٍ قَدِ ارْتَدَّ عَنِ الْإِسْلَامِ، فَدَعَاهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ قَرِيبًا مِنْهَا، فَجَاءَ مُعَاذٌ فَدَعَاهُ فَأَبَى، فَضَرَبَ عُنُقَهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ 63 لَمْ يَذْكُرِ الِاسْتِتَابَةَ وَرَوَاهُ ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الِاسْتِتَابَةَ.
اس سند سے بھی ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے یہی واقعہ مروی ہے، وہ کہتے ہیں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو لے کر آیا گیا جو اسلام سے مرتد گیا تھا، بیس دن تک یا اس کے لگ بھگ وہ اسے اسلام کی دعوت دیتے رہے کہ اسی دوران معاذ رضی اللہ عنہ آ گئے تو آپ نے بھی اسے اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کر دیا تو آپ نے اس کی گردن مار دی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالملک بن عمیر نے ابوبردہ سے روایت کیا ہے لیکن انہوں نے اس میں ”توبہ کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے“ اور اسے ابن فضیل نے شیبانی سے شیبانی نے سعید بن ابی بردہ سے، ابوبردہ نے اپنے والد ابوبردہ سے اور ابوبردہ نے ابوموسیٰ اشعری سے روایت کیا ہے اور اس میں بھی انہوں نے ”توبہ کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: 4354، (تحفة الأشراف: 9096، 9113، 19195) (صحیح الإسناد)»
Abu Burdah said: A man who turned back from Islam was brought to Abu Musa. He invited him to repent for twenty days or about so. Muadh then came and invited him (to embrace Islam) but he refused. So he was beheaded.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4342
(موقوف) حدثنا ابن معاذ، حدثنا ابي، حدثنا المسعودي، عن القاسم بهذه القصة قال: فلم ينزل حتى ضرب عنقه وما استتابه. (موقوف) حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَ: فَلَمْ يَنْزِلْ حَتَّى ضُرِبَ عُنُقُهُ وَمَا اسْتَتَابَهُ.
قاسم سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں ہے کہ جب تک اس کی گردن مار نہیں دی گئی وہ سواری سے نیچے نہیں اترے اور انہوں نے اس سے توبہ نہیں کرائی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (4354)، (تحفة الأشراف: 9096) (ضعیف الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: یہ اس سے پہلے والی روایت کے معارض ہے جس میں ذکر ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے اسے اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا لیکن مسعودی کی یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
The tradition mention above has also been transmitted by Abu Musa through a different chain if narrators. But there is no mention of demand of repentance.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4343
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد المروزي، حدثنا علي بن الحسين بن واقد، عن ابيه، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:"كان عبد الله بن سعد بن ابي سرح يكتب لرسول الله صلى الله عليه وسلم فازله الشيطان فلحق بالكفار فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقتل يوم الفتح، فاستجار له عثمان بن عفان فاجاره رسول الله صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:"كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَزَلَّهُ الشَّيْطَانُ فَلَحِقَ بِالْكُفَّارِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْتَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَاسْتَجَارَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَأَجَارَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا، پھر شیطان نے اس کو بہکا لیا، اور وہ کافروں سے جا ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم دیا، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لیے امان مانگی تو آپ نے اسے امان دی۔
وضاحت: ۱؎: یہ عثمان رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی تھے، عثمان انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے اور اس کی معافی کے لئے بہت زیادہ شفارش کی تو ان کا قصور معاف ہو گیا۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: Abdullah ibn Abu Sarh used to write (the revelation) for the Messenger of Allah ﷺ. Satan made him slip, and he joined the infidels. The Messenger of Allah ﷺ commanded to kill him on the day of Conquest (of Makkah). Uthman ibn Affan sought protection for him. The Messenger of Allah ﷺ gave him protection.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4345
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا احمد بن المفضل، حدثنا اسباط بن نصر، قال زعم السدي: عن مصعب بن سعد، عن سعد، قال: لما كان يوم فتح مكة اختبا عبد الله بن سعد بن ابي سرح عند عثمان بن عفان، فجاء به حتى اوقفه على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله بايع عبد الله، فرفع راسه فنظر إليه ثلاثا كل ذلك يابى، فبايعه بعد ثلاث ثم اقبل على اصحابه فقال:" اما كان فيكم رجل رشيد يقوم إلى هذا حيث رآني كففت يدي عن بيعته فيقتله، فقالوا: ما ندري يا رسول الله ما في نفسك الا اومات إلينا بعينك، قال: إنه لا ينبغي لنبي ان تكون له خائنة الاعين". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ زَعَمَ السُّدِّيُّ: عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ اخْتَبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَجَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَايِعْ عَبْدَ اللَّهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ يَأْبَى، فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ:" أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ، فَقَالُوا: مَا نَدْرِي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا فِي نَفْسِكَ أَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ، قَالَ: إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ تَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ الْأَعْيُنِ".
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گیا، پھر آپ نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لا کھڑا کیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ سے بیعت لے لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی طرف تین بار دیکھا، ہر بار آپ انکار فرماتے رہے، پھر تین دفعہ کے بعد آپ نے اس سے بیعت لے لی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کیا تم میں کوئی ایسا نیک بخت انسان نہیں تھا کہ اس وقت اسے کھڑا ہوا پا کر قتل کر دیتا، جب اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ میں اس سے بیعت کے لیے اپنا ہاتھ روکے ہوئے ہوں“ تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا جو منشا تھا ہمیں معلوم نہ ہو سکا، آپ نے اپنی آنکھ سے ہمیں اشارہ کیوں نہیں کر دیا ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی نبی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ کنکھیوں سے پوشیدہ اشارے کرے“۔
Narrated Saad ibn Abu Waqqas: On the day of the conquest of Makkah, Abdullah ibn Saad ibn Abu Sarh hid himself with Uthman ibn Affan. He brought him and made him stand before the Prophet ﷺ, and said: Accept the allegiance of Abdullah, Messenger of Allah! He raised his head and looked at him three times, refusing him each time, but accepted his allegiance after the third time. Then turning to his companions, he said: Was not there a wise man among you who would stand up to him when he saw that I had withheld my hand from accepting his allegiance, and kill him? They said: We did not know what you had in your heart, Messenger of Allah! Why did you not give us a signal with your eye? He said: It is not advisable for a Prophet to play deceptive tricks with the eyes.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4346
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب غلام دارالحرب بھاگ جائے تو اس کا خون مباح ہو گیا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان (68)، سنن النسائی/المحاربة 10 (4057)، (تحفة الأشراف: 3217)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/365) (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ جب دارالحرب کی طرف بھاگ جانے سے اس کا خون مباح ہو گیا تو اس کے ساتھ اگر وہ مرتد بھی ہو گیا تو بدرجہ اولیٰ اس کا خون مباح ہو گا۔