سنن ابي داود
كِتَاب الْحُدُودِ
کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان
1. باب الْحُكْمِ فِيمَنِ ارْتَدَّ
باب: مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 4360
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا أَبَقَ الْعَبْدُ إِلَى الشِّرْكِ فَقَدْ حَلَّ دَمُهُ".
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب غلام دارالحرب بھاگ جائے تو اس کا خون مباح ہو گیا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان (68)، سنن النسائی/المحاربة 10 (4057)، (تحفة الأشراف: 3217)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/365) (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ جب دارالحرب کی طرف بھاگ جانے سے اس کا خون مباح ہو گیا تو اس کے ساتھ اگر وہ مرتد بھی ہو گیا تو بدرجہ اولیٰ اس کا خون مباح ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف وصح بلفظ فقد برئت منه الذمة م
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي (40574061)
أبو إسحاق عنعن
و حديث مسلم (70) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 154
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4360 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4360
فوائد ومسائل:
شرک سے مراد دارالحرب اور مشرکین کا علاقہ ہے۔
دارالحرب میں باقاعدہ اقامت حرام ہے، اگر ایسا آدمی ہی سے مرتد ہو جائے تو معاملہ اور بھی سخت ہوجاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4360
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4054
´غلام مشرکین کے علاقہ میں بھاگ جائے اس کا بیان اور جریر رضی الله عنہ کی حدیث کی روایت میں شعبی پر اختلاف کا ذکر۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب غلام بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہو گی یہاں تک کہ وہ اپنے مالک کے پاس لوٹ آئے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4054]
اردو حاشہ:
(1) ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ اگر کوئی غلام بھاگ کر مشرکوں اور کافروں کے علاقے میں چلا جائے اور انہی سے مل جائے تو وہ محارب کے حکم میں ہو گا، چنانچہ اس کا حکم یہ ہے کہ جب وہ گرفت میں آ جائے تو اسے قتل کر دیا جائے جس طرح کہ حضرت جریر نے کیا تھا۔ باب مذکور کی دوسری حدیث میں اس واقعے کی صراحت موجود ہے۔
(2) نماز قبول نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اسے نماز کا ثواب نہیں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل نہ ہو گی اگرچہ ویسے نماز کفایت کر جائے گی، یعنی اس کے ذمے سے نماز کا فریضہ ساقط ہو جائے گا اور اسے اس کی قضا نہیں دینی پڑے گی۔ کہا جاتا ہے: [القبول أخص من الأجزاء ] ”کسی عمل کی قبولیت اس کے محض کفایت کرنے سے خاص ہے۔“ چونکہ کسی بھی نیک صالح عمل کی قبولیت اجر و ثواب، اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا مندی کے حصول کا سبب ہوتی ہے جبکہ اجزا (کفایت) کا مطلب صرف یہ ہے کہ جو ذمہ داری فرض تھی اور جس چیز کا انسان مکلف تھا وہ فرض اس سے ساقط ہو گیا اور بس۔ مزید کوئی اجر و ثواب یا اللہ تعالیٰ کا قرب و رضا اس سے حاصل نہیں ہوتا۔ جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر اسے چھوڑ کر کافروں اور مشرکوں کے علاقے میں چلا جائے تو اس طرح وہ اپنے مالک کا نقصان کرتا ہے، چنانچہ سزا کے طور پر اس کی نماز، باوجود ادا کرنے کے، بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔ البتہ اس کے ذمے جو فرض تھا وہ ساقط ہو جائے گا کیونکہ نماز کی ذاتی شرائط اس میں موجود ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ اس صورت میں ہے کہ اس غلام کا مقصد صرف ادھر سے بھاگنا ہو، ان کافروں سے مل جانا مقصد نہ ہو۔ اگر اس غلام کا مقصد محض ادھر سے بھاگ کر ادھر جانا نہیں بلکہ ان کے دین کو ترجیح دینا اور پسند کرنا ہو تو پھر یہ غلام مرتد اور کافر ہو جائے گا۔ اب اگر بالفرض نماز پڑھے بھی سہی تو نہ وہ نماز صحیح ہو گی اور نہ قبول ہی ہو گی۔ و اللہ أعلم۔
(3) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض احکام ایسے ہوتے ہیں جن کے کر لینے سے، ادائیگی کے باوجود، فرائض قبول نہیں ہوتے۔
(4) کفر و شرک پر راضی اور خوش ہونا بھی کفر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4054
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4055
´غلام مشرکین کے علاقہ میں بھاگ جائے اس کا بیان اور جریر رضی الله عنہ کی حدیث کی روایت میں شعبی پر اختلاف کا ذکر۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب غلام بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہو گی، اور اگر وہ مر گیا تو وہ کفر کی حالت میں مرا۔“ اور جریر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام بھاگ گیا تو آپ نے اسے پکڑا اور اس کی گردن اڑا دی۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4055]
اردو حاشہ:
یہاں ایک خاص صورت کا ذکر ہے کہ جب غلام بھاگ کر کفار کے پاس چلا جائے جیسا کہ باب کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ یا تو مرتد ہو گا یا کم از کم باغی۔ پہلی صورت میں وہ وجوباً اوردوسری صورت میں جوزاً قتل کیا جائے گا۔ چاہے وہ علانیہ مرتد نہ ہی ہوا ہو۔ آئندہ احادیث کا مقصود یہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4055
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:826
826-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:826]
فائدہ:
① امام نووی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں: لحد بنانا مستحب ہے کیونکہ صحابہ کرام کے اتفاق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحد ہی کھودی گئی تھی۔ [صحيح مسلم الجنائز: 966]
لہٰذا جہاں لحد”بغلی قبر“ بن سکتی ہو وہاں لحد بنانا مستحب اور افضل ہے۔ البتہ شق ”صندوقی قبر“ بنانا جائز ہے۔
② لحد یعنی بغلی قبر سے مراد یہ ہے کہ پہلے گڑھا کھودا جائے، پھر اس میں ایک طرف میت کے لیے جگہ بنا کر اس میں میت کو رکھا جائے اور شق کا مطلب یہ ہے کہ بڑا گڑھا کھود کر اس کے درمیان میں میت کے لیے نسبتاً چھوٹا گڑھا کھودا جائے۔ دونوں طرح قبر بنانا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دونوں طریقوں پر عمل ہوتا تھا۔ دوسروں کے لیے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے لیے جائز نہیں۔ غالبا اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلموں میں زیادہ شق کا رواج ہے اور مسلمان زیادہ تر لحد بناتے ہیں۔ (واللہ اعلم)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 827
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 229
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: " جو غلام بھگوڑا ہو گیا تو وہ ذمہ داری سے نکل گیا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:229]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اسلامی احکام وہدایات پر عمل کرنے سے انسان کو کچھ تحفظات حاصل ہوتے ہیں،
جو اسلامی احکام کو توڑنے کی بنا پر ختم ہوجاتے ہیں،
غلام کے بھاگ جانے کی صورت میں،
شریعت کے جو تحفظات تھے وہ ان سے محروم ہوجائے گا اور اس کا مالک اس کو تلاش کرکے اس کو جو چاہے گا سلوک کرنے کا اختیار حاصل کرے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 229
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 230
حضرت جریربن عبداللہ ؓ نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے تھےکہ: ”جب غلام بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:230]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ نے عبادات اربعہ (نماز،
روزہ،
زکوٰۃ اور حج)
میں مختلف خصوصیات رکھی ہیں اور ان کی ادائیگی سے انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کا جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے،
اور یہ راہ حق کو روشن اور منور کرتے ہیں۔
نماز قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز کے نور وروشنی اور اس کی خیرات وبرکات سے محروم ہوجاتا ہے اور یہ نماز اس کے لیے اجر وثواب اور فضیلت ورفعت کا باعث نہیں بنتی،
اگرچہ ظاہری طور پر وہ اس فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہوجاتا ہے اس پر قضائی نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 230