سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان
Prescribed Punishments (Kitab Al-Hudud)
1. باب الْحُكْمِ فِيمَنِ ارْتَدَّ
1. باب: مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔
Chapter: Ruling on one who apostatizes.
حدیث نمبر: 4359
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا احمد بن المفضل، حدثنا اسباط بن نصر، قال زعم السدي: عن مصعب بن سعد، عن سعد، قال: لما كان يوم فتح مكة اختبا عبد الله بن سعد بن ابي سرح عند عثمان بن عفان، فجاء به حتى اوقفه على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله بايع عبد الله، فرفع راسه فنظر إليه ثلاثا كل ذلك يابى، فبايعه بعد ثلاث ثم اقبل على اصحابه فقال:" اما كان فيكم رجل رشيد يقوم إلى هذا حيث رآني كففت يدي عن بيعته فيقتله، فقالوا: ما ندري يا رسول الله ما في نفسك الا اومات إلينا بعينك، قال: إنه لا ينبغي لنبي ان تكون له خائنة الاعين".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ زَعَمَ السُّدِّيُّ: عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ اخْتَبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَجَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَايِعْ عَبْدَ اللَّهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ يَأْبَى، فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ:" أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ، فَقَالُوا: مَا نَدْرِي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا فِي نَفْسِكَ أَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ، قَالَ: إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ تَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ الْأَعْيُنِ".
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گیا، پھر آپ نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لا کھڑا کیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ سے بیعت لے لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی طرف تین بار دیکھا، ہر بار آپ انکار فرماتے رہے، پھر تین دفعہ کے بعد آپ نے اس سے بیعت لے لی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں کوئی ایسا نیک بخت انسان نہیں تھا کہ اس وقت اسے کھڑا ہوا پا کر قتل کر دیتا، جب اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ میں اس سے بیعت کے لیے اپنا ہاتھ روکے ہوئے ہوں تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا جو منشا تھا ہمیں معلوم نہ ہو سکا، آپ نے اپنی آنکھ سے ہمیں اشارہ کیوں نہیں کر دیا ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی نبی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ کنکھیوں سے پوشیدہ اشارے کرے۔

وضاحت:
۱؎: کیوں کنکھیوں سے اشارہ کرنا یہ ایسے دنیاداروں کا طریقہ ہے جنہیں اللہ کا خوف نہیں ہوتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (2683)، (تحفة الأشراف: 3938) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Saad ibn Abu Waqqas: On the day of the conquest of Makkah, Abdullah ibn Saad ibn Abu Sarh hid himself with Uthman ibn Affan. He brought him and made him stand before the Prophet ﷺ, and said: Accept the allegiance of Abdullah, Messenger of Allah! He raised his head and looked at him three times, refusing him each time, but accepted his allegiance after the third time. Then turning to his companions, he said: Was not there a wise man among you who would stand up to him when he saw that I had withheld my hand from accepting his allegiance, and kill him? They said: We did not know what you had in your heart, Messenger of Allah! Why did you not give us a signal with your eye? He said: It is not advisable for a Prophet to play deceptive tricks with the eyes.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4346


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
أخرجه النسائي (4072 وسنده حسن) وانظر الحديث السابق (2683)

   سنن أبي داود2683سعد بن مالكلا ينبغي لنبي أن تكون له خائنة الأعين
   سنن أبي داود4359سعد بن مالكلا ينبغي لنبي أن تكون له خائنة الأعين

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 4359 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4359  
فوائد ومسائل:

اللہ کے رسول اس کے دین اور اسلام سے مرتد ہو جانے والے کی سزا قتل ہے۔


آنکھ سے مخفی اشارہ کرنا آنکھ کی خیانت ہے جو کسی بھی صاحب دین کے لئے روا نہیں اور یہ بہت برا عیب ہے۔


اللہ تعالی کے فضل وعنایت کی کوئی انتہا نہیں، حضرت عبد اللہ بن سعد بن ابو سرح رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی تھے بعدازاسلام کچھ عرصہ کے لئے مرتد بھی ہوگئے رسول اللہﷺ نے ابتدا میں ان کے قتل کا حکم بھی دیا تھا، مگر اللہ کی توفیق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارش سے فتح مکہ کے دن ان کی توبہ قبول کر لی گئی تھی۔
اور ان کا اسلام بہت عمدہ رہا۔
سیدنا عثمان کے دور میں مصر کے والی رہے۔
افریقہ ذات الصواری اور اساود کے غزوات ان کی اہم مہمات میں سے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4359   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2683  
´قیدی پر اسلام پیش کئے بغیر اسے قتل کر دینے کا بیان۔`
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا سب کو امان دے دی، انہوں نے ان کا اور ابن ابی السرح کا نام لیا، رہا ابن ابی سرح تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو عثمان نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! عبداللہ سے بیعت لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی جانب دیکھا، تین بار ایسا ہی کیا، ہر بار آپ انکار کرتے رہے، تین بار ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2683]
فوائد ومسائل:

چونکہ یہ لوگ جنگی مجرم تھے۔
اور اسلام ہی کی شہرت ہی ان کے لئے اسلام کی دعوت تھی۔
اس لئے ان کے بارے میں حکم تھا۔
کہ جہاں ملیں ان کو قتل کردیا جائے۔
خواہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ ہی کیوں نہ چمٹے ہوئے ہوں۔
اور یہ کئی افراد تھے۔
عکرمہ بن ابی جہل۔
عبد اللہ بن خطل۔
مقیس بن صبابہ۔
عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح۔
(ان کے علاوہ اور بھی کئی لوگ تھے) اور عورتوں میں ابن خطل۔
یا مقیس بن صبابہ کی لونڈیاں قریبہ اور فرتنی۔
(علاوہ ازیں اور بھی عورتوں کے نام آتے ہیں) عبد اللہ بن خطل کو کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا پایا گیا۔
اور وہیں قتل کر دیا گیا۔
مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں جالیا۔
اور قتل ہوا۔
اور عکرمہ بھاگ کرکشتی میں سوار ہوگئے۔
اور قتل ہونے سے بچ گئے۔
پھر بعد میں حاضر خدمت ہوئے اور اسلام لے آئے۔
جو قبول کرلیا گیا۔
اور بڑے مخلص مسلمان ثابت ہوئے۔
عبد اللہ بن ابی سرح کے متعلق آتا ہے۔
یہ ابتداء میں ر سول اللہ ﷺ کے کاتب تھے۔
مگر مرتد ہوگئے۔
ان پر شدت اور سختی کی وجہ یہی تھی۔
بعد میں انہوں نے بھی دوبارہ اسلام قبول کر لیا گیا تھا۔
عورتوں میں یہ لونڈیاں رسول اللہ ﷺ کی ہجو کیا (مذمت میں شعرپڑھا) کرتی تھیں۔
قریبہ قتل کی گئی۔
جب کہ فرتنی بھاگ نکلی اور بعدمیں اسلام قبول کیا۔


آنکھ سے چھپا اشارہ کرنا آنکھ کی خیانت مجرمانہ ہے۔
جو نبی کے کئے خصوصاً اور مومن کے لئے عموما درست نہیں۔
نیزدیکھئے: (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3194)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2683   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.