(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد المروزي، حدثنا علي بن الحسين بن واقد، عن ابيه، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:"كان عبد الله بن سعد بن ابي سرح يكتب لرسول الله صلى الله عليه وسلم فازله الشيطان فلحق بالكفار فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقتل يوم الفتح، فاستجار له عثمان بن عفان فاجاره رسول الله صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:"كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَزَلَّهُ الشَّيْطَانُ فَلَحِقَ بِالْكُفَّارِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْتَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَاسْتَجَارَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَأَجَارَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا، پھر شیطان نے اس کو بہکا لیا، اور وہ کافروں سے جا ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم دیا، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لیے امان مانگی تو آپ نے اسے امان دی۔
وضاحت: ۱؎: یہ عثمان رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی تھے، عثمان انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے اور اس کی معافی کے لئے بہت زیادہ شفارش کی تو ان کا قصور معاف ہو گیا۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: Abdullah ibn Abu Sarh used to write (the revelation) for the Messenger of Allah ﷺ. Satan made him slip, and he joined the infidels. The Messenger of Allah ﷺ commanded to kill him on the day of Conquest (of Makkah). Uthman ibn Affan sought protection for him. The Messenger of Allah ﷺ gave him protection.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4345
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أخرجه النسائي (4074 وسنده حسن)
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4074
´مرتد کی توبہ کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سورۃ النحل کی اس آیت: «من كفر باللہ من بعد إيمانه إلا من أكره»”جس نے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کیا سوائے اس کے جسے مجبور کیا گیا ہو … ان کے لیے درد ناک عذاب ہے“(النحل: ۱۰۶) کے بارے میں کہا: یہ منسوخ ہو گئی اور اس سے مستثنیٰ یہ لوگ ہوئے، پھر یہ آیت پڑھی: «ثم إن ربك للذين هاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاهدوا وصبروا إن ربك من بعدها لغفور رحيم»”پھر جو لوگ فتنے میں پڑ جانے کے بعد ہجرت کر کے آئے، جہاد کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4074]
اردو حاشہ: (1) باب سے حدیث شرف کی مطابقت بالکل واضح ہے کہ مرتد کی توبہ بھی قبول ہے۔ (2) آیات و احکام الٰہی کا نسخ شرعاً ثابت ہے اور اس مسئلے کی بابت اہل اسلام کا اجماع ہے کہ دین میں کئی احکام پہلے دئیے گئے، بعد ازاں انہیں منسوخ کر دیا گیا۔ پھر کبھی تو ان سابقہ احکام کی مثل عطا فرمایا گیا اور کبھی ان سے بھی بہتر۔ ارشاد باری ہے: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أونَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا﴾(البقرة: 2:106)”جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں، اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں۔“ (3) تشریح و تنسیخ احکام میں محض اللہ عز و جل کی حکمتِ بالغہ کار فرما ہے۔ وہ ہر چیز کو خوب جانتا اور ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔ جب، اور جب تک وہ چاہتا ہے کسی چیز کی بابت اسے بجا لانے کا حکم فرماتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے اسے ختم فرما دیتا ہے۔ وہ ﴿فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ﴾ ہے۔ (4) یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی کو زبردستی کفر کرنے پر مجبور کر دیا جائے جبکہ اس شخص کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو وہ شخص قابل مؤاخذہ نہیں۔ (5) اس سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ جب زبردستی کرائے جانے والے کفر پر گرفت نہیں تو جو …کفریہ اعمال… اس سے کم تر درجے کے ہیں، ان پر بطریق اولیٰ کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ بندوق کے زور پر یا کسی اور طریقے سے زبردستی کی جانے والی طلاق بھی نافذ نہیں ہو گی۔ (6) کسی بھی معاملے میں جائز سفارش، حاکم یا غیر حاکم کے پاس کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عبداللہ بن سعد بن ابو سرح رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سفارش رسول اللہ ﷺ سے کی تھی۔ (7) حاکم چاہے تو کسی کی جائز سفارش قبول کر لے، چاہے تو رد کر دے اسے اس کا اختیار ہے۔ (8) رسول اللہ ﷺ کے ہاں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عظیم مقام و مرتبہ بھی اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایک بہت بڑے مجرم کی بابت ان کی سفارش قبول فرما لی، حالانکہ قبل ازیں نبی ﷺ اسے قتل کرنے کا حکم صادر فرما چکے تھے اور حرم شریف کے اندر بھی اس کا خون بہانا جائز اور حلال ہو چکا تھا۔ وَ لِلّٰہِ دَرُّہٗ۔ (9) یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کمال درجے کے مہربان و شفیق انسان تھے۔ مرتد ہو جانے والے، انتہائی ایذا رساں شخص کو معاف کر دینا، آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا عجیب مظہر ہے۔ صلی اللہ علیه وسلم- فداہ أبي و أمي و عرضي۔ (10) اس بات پر اتفاق ہے کہ مرتد مرد اور مرتد عورت اگر توبہ کر لیں اور دوبارہ اسلام قبول کر لیں تو ان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یمن بھیجتے وقت ارشاد فرمائی تھی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں تو انہیں بے دریغ قتل کر دیا جائے گا، مرد ہو یا عورت۔ احناف عورت کو ارتداد کی سزا میں قتل کرنے کے قائل نہیں مگر ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4074