كِتَاب الْأَطْعِمَةِ کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل 5. باب مَا جَاءَ فِي الضِّيَافَةِ باب: ضیافت (مہمان نوازی) کا بیان۔
ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہیئے، اس کا جائزہ ایک دن اور ایک رات ہے اور ضیافت تین دن تک ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے، اور اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے پاس اتنے عرصے تک قیام کرے کہ وہ اسے مشقت اور تنگی میں ڈال دے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ اشہب نے آپ کو خبر دی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: امام مالک سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان «جائزته يوم وليلة» کے متعلق پوچھا گیا: تو انہوں نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ میزبان ایک دن اور ایک رات تک اس کی عزت و اکرام کرے، تحفہ و تحائف سے نوازے، اور اس کی حفاظت کرے اور تین دن تک ضیافت کرے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 31 (6019)، 85 (6135)، الرقاق 23 (6476)، صحیح مسلم/الإیمان 19 (48)، سنن الترمذی/البر والصلة 43 (1967)، سنن ابن ماجہ/الأدب 5 (3675)، (تحفة الأشراف: 12056)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صفة النبيﷺ10 (22) مسند احمد (4/31، 6/384، 385)، سنن الدارمی/الأطعمة 11 (2078) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی پہلے دن اپنی حیثیت کے مطابق خصوصی اہتمام کرے اور باقی دو دنوں میں بغیر تکلف واہتمام کے ماحضر پیش کرے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہمانداری تین روز تک ہے، اور جو اس کے علاوہ ہو وہ صدقہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 12808)، وقد أخرجہ: حم(2/354) (حسن، صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح الإسناد
ابوکریمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مسلمان پر مہمان کی ایک رات کی ضیافت حق ہے، جو کسی مسلمان کے گھر میں رات گزارے تو ایک دن کی مہمانی اس پر قرض ہے، چاہے تو اسے وصول کر لے اور چاہے تو چھوڑ دے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأدب 5 (3677)، (تحفة الأشراف: 11568) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوکریمہ مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی قوم کے پاس بطور مہمان آئے اور صبح تک ویسے ہی محروم رہے تو ہر مسلمان پر اس کی مدد لازم ہے یہاں تک کہ وہ ایک رات کی مہمانی اس کی زراعت اور مال سے لے لے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11564)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/131، 133)، دی/ الأطعمة 11 (2080) (ضعیف)» (اس کے راوی سعید بن ابی المہاجر مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں (جہاد یا کسی دوسرے کام کے لیے) بھیجتے ہیں تو (بسا اوقات) ہم کسی قوم میں اترتے ہیں اور وہ لوگ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے تو اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”اگر تم کسی قوم میں جاؤ اور وہ لوگ تمہارے لیے ان چیزوں کا انتظام کر دیں جو مہمان کے لیے چاہیئے تو اسے تم قبول کرو اور اگر وہ نہ کریں تو ان سے مہمانی کا حق جو ان کے حسب حال ہو لے لو ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لیے دلیل ہے جس کا حق کسی کے ذمہ ہو تو وہ اپنا حق لے سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المظالم 18 (2461)، الأدب 85 (6137)، صحیح مسلم/اللقطة 3 (1727)، سنن الترمذی/السیر 32 (1589)، سنن ابن ماجہ/الأدب 5 (3676)، (تحفة الأشراف: 9954)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/149) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کافروں سے صلح کی تھی تو اس صلح میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ اگر مسلمان تمہارے ملک میں آئیں جائیں تو ان کی ضیافت لازمی ہے، اس حدیث میں وہی لوگ مراد ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافر مسلمانوں کو اپنی مہمان نوازی پر مجبور کرے، یہ اور بات ہے کہ مہمان نوازی اور ضیافت مسنون و مستحب ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|