كتاب الصيام کتاب: روزوں کے احکام و مسائل 75. باب الْمَرْأَةِ تَصُومُ بِغَيْرِ إِذْنِ زَوْجِهَا باب: شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے (نفل) روزے رکھنے کے حکم کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی عورت روزہ نہ رکھے سوائے رمضان کے، اور بغیر اس کی اجازت کے اس کی موجودگی میں کسی کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ البیوع 12 (2066)، النکاح 84 (5192)، النفقات 5 5360)، صحیح مسلم/الزکاة 26 (1026)، سنن الترمذی/الصوم 65 (782)، سنن ابن ماجہ/الصیام 53 (1761)، (تحفة الأشراف: 14695، 14793)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/361)، سنن الدارمی/الصوم 20 (1761) (صحیح) دون ذکر رمضان»
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون ذكر رمضان
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، ہم آپ کے پاس تھے، کہنے لگی: اللہ کے رسول! میرے شوہر صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھتی ہوں تو مجھے مارتے ہیں، اور روزہ رکھتی ہوں تو روزہ تڑوا دیتے ہیں، اور فجر سورج نکلنے سے پہلے نہیں پڑھتے۔ صفوان اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان باتوں کے متعلق پوچھا جو ان کی بیوی نے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا یہ الزام کہ نماز پڑھنے پر میں اسے مارتا ہوں تو بات یہ ہے کہ یہ دو دو سورتیں پڑھتی ہے جب کہ میں نے اسے (دو دو سورتیں پڑھنے سے) منع کر رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اگر ایک ہی سورت پڑھ لیں تب بھی کافی ہے“۔ صفوان نے پھر کہا کہ اور اس کا یہ کہنا کہ میں اس سے روزہ افطار کرا دیتا ہوں تو یہ روزہ رکھتی چلی جاتی ہے، میں جوان آدمی ہوں صبر نہیں کر پاتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن فرمایا: ”کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر (نفل روزہ) نہ رکھے“۔ رہی اس کی یہ بات کہ میں سورج نکلنے سے پہلے نماز نہیں پڑھتا تو ہم اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ سورج نکلنے سے پہلے ہم اٹھ ہی نہیں پاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بھی جاگو نماز پڑھ لیا کرو ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4012)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الصیام 53 (1762)، مسند احمد (3/80، 84)، سنن الدارمی/الصوم 20 (1760) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ گویا آپ شرعی طور پر اس بات میں معذور تھے، اور یہ واقعہ کبھی کبھار کا ہی ہو سکتا ہے، جس کو مسئلہ بنا کر ان کی بیوی نے عدالت نبوی میں پیش کیا۔ صحابی رسول کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ قصداً و عمداً وہ نماز میں تساہلی کرے گا، رات بھر کی محنت و مزدوری کے بعد آدمی تھک کر چور ہو جاتا ہے، اور فطری طور پر آخری رات کی نیند سے خود سے یا جلدی بیدار ہونا مشکل مسئلہ ہے، اگر کبھی ایسی معذوری ہو جائے تو بیداری کے بعد نماز ادا کر لی جائے، ایک بات یہ بھی واضح رہے کہ صفوان اور ان کے خاندان کے لوگ گہری نیند اور تاخیر سے اٹھنے کی عادت میں مشہور تھے، جیسا کہ زیر بحث حدیث میں صراحت ہے، نیز مسند احمد میں صفوان کا قول ہے کہ: میں گہری نیند والا ہوں، اور ایسے خاندان سے ہوں جو اپنی گہری نیند کے بارے میں مشہور ہیں (۳؍۸۴- ۸۵)۔ نیز مسند احمد میں ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ کن وقتوں میں نماز مکروہ ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فجر کے بعد نماز سے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل آئے، جب سورج نکل آئے تو نماز پڑھو ...“ (۵ ؍۳۱۲)۔ چنانچہ غزوات میں اپنی اسی عادت کی بنا پر قافلہء مجاہدین میں سب سے بعد میں لوگوں کے گرے پڑے سامان سمیٹ کر قافلہ سے مل جاتے (ملاحظہ ہو واقعہ إفک جو کہ غزوہ بنی مصطلق میں ہوا)۔ یہ بھی واضح رہے کہ فجر میں مسلسل غیر حاضری کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخفی نہیں رہ سکتا، بلکہ یہ حرکت تو منافقین سے سرزد ہوتی تھی، اور صحابہ کرام کے بارے میں یا صفوان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|