سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
Fasting (Kitab Al-Siyam)
75. باب الْمَرْأَةِ تَصُومُ بِغَيْرِ إِذْنِ زَوْجِهَا
75. باب: شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے (نفل) روزے رکھنے کے حکم کا بیان۔
Chapter: A Woman Fasting Without Permission Of Her Husband.
حدیث نمبر: 2459
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، قال: جاءت امراة إلى النبي صلى الله عليه وسلم ونحن عنده. فقالت: يا رسول الله، إن زوجي صفوان بن المعطل يضربني إذا صليت، ويفطرني إذا صمت، ولا يصلي صلاة الفجر حتى تطلع الشمس. قال وصفوان عنده: قال: فساله عما قالت، فقال: يا رسول الله، اما قولها يضربني إذا صليت، فإنها تقرا بسورتين وقد نهيتها، قال: فقال: لو كانت سورة واحدة لكفت الناس. واما قولها يفطرني، فإنها تنطلق فتصوم وانا رجل شاب فلا اصبر. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ:" لا تصوم امراة إلا بإذن زوجها". واما قولها إني لا اصلي حتى تطلع الشمس، فإنا اهل بيت قد عرف لنا ذاك، لا نكاد نستيقظ حتى تطلع الشمس. قال:" فإذا استيقظت فصل". قال ابو داود: رواه حماد يعني ابن سلمة، عن حميد او ثابت، عن ابي المتوكل.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ. فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ زَوْجِي صَفْوَانَ بْنَ الْمُعَطَّلِ يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ، وَيُفَطِّرُنِي إِذَا صُمْتُ، وَلَا يُصَلِّي صَلَاةَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ. قَالَ وَصَفْوَانُ عِنْدَهُ: قَالَ: فَسَأَلَهُ عَمَّا قَالَتْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَّا قَوْلُهَا يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ، فَإِنَّهَا تَقْرَأُ بِسُورَتَيْنِ وَقَدْ نَهَيْتُهَا، قَالَ: فَقَالَ: لَوْ كَانَتْ سُورَةً وَاحِدَةً لَكَفَتِ النَّاسَ. وَأَمَّا قَوْلُهَا يُفَطِّرُنِي، فَإِنَّهَا تَنْطَلِقُ فَتَصُومُ وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ فَلَا أَصْبِرُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ:" لَا تَصُومُ امْرَأَةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا". وَأَمَّا قَوْلُهَا إِنِّي لَا أُصَلِّي حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ قَدْ عُرِفَ لَنَا ذَاكَ، لَا نَكَادُ نَسْتَيْقِظُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ. قَالَ:" فَإِذَا اسْتَيْقَظْتَ فَصَلِّ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ أَوْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، ہم آپ کے پاس تھے، کہنے لگی: اللہ کے رسول! میرے شوہر صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھتی ہوں تو مجھے مارتے ہیں، اور روزہ رکھتی ہوں تو روزہ تڑوا دیتے ہیں، اور فجر سورج نکلنے سے پہلے نہیں پڑھتے۔ صفوان اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان باتوں کے متعلق پوچھا جو ان کی بیوی نے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا یہ الزام کہ نماز پڑھنے پر میں اسے مارتا ہوں تو بات یہ ہے کہ یہ دو دو سورتیں پڑھتی ہے جب کہ میں نے اسے (دو دو سورتیں پڑھنے سے) منع کر رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ اگر ایک ہی سورت پڑھ لیں تب بھی کافی ہے۔ صفوان نے پھر کہا کہ اور اس کا یہ کہنا کہ میں اس سے روزہ افطار کرا دیتا ہوں تو یہ روزہ رکھتی چلی جاتی ہے، میں جوان آدمی ہوں صبر نہیں کر پاتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن فرمایا: کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر (نفل روزہ) نہ رکھے۔ رہی اس کی یہ بات کہ میں سورج نکلنے سے پہلے نماز نہیں پڑھتا تو ہم اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ سورج نکلنے سے پہلے ہم اٹھ ہی نہیں پاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی جاگو نماز پڑھ لیا کرو ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ گویا آپ شرعی طور پر اس بات میں معذور تھے، اور یہ واقعہ کبھی کبھار کا ہی ہو سکتا ہے، جس کو مسئلہ بنا کر ان کی بیوی نے عدالت نبوی میں پیش کیا۔ صحابی رسول کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ قصداً و عمداً وہ نماز میں تساہلی کرے گا، رات بھر کی محنت و مزدوری کے بعد آدمی تھک کر چور ہو جاتا ہے، اور فطری طور پر آخری رات کی نیند سے خود سے یا جلدی بیدار ہونا مشکل مسئلہ ہے، اگر کبھی ایسی معذوری ہو جائے تو بیداری کے بعد نماز ادا کر لی جائے، ایک بات یہ بھی واضح رہے کہ صفوان اور ان کے خاندان کے لوگ گہری نیند اور تاخیر سے اٹھنے کی عادت میں مشہور تھے، جیسا کہ زیر بحث حدیث میں صراحت ہے، نیز مسند احمد میں صفوان کا قول ہے کہ: میں گہری نیند والا ہوں، اور ایسے خاندان سے ہوں جو اپنی گہری نیند کے بارے میں مشہور ہیں (۳؍۸۴- ۸۵)۔ نیز مسند احمد میں ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ کن وقتوں میں نماز مکروہ ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کے بعد نماز سے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل آئے، جب سورج نکل آئے تو نماز پڑھو ... (۵ ؍۳۱۲)۔ چنانچہ غزوات میں اپنی اسی عادت کی بنا پر قافلہء مجاہدین میں سب سے بعد میں لوگوں کے گرے پڑے سامان سمیٹ کر قافلہ سے مل جاتے (ملاحظہ ہو واقعہ إفک جو کہ غزوہ بنی مصطلق میں ہوا)۔ یہ بھی واضح رہے کہ فجر میں مسلسل غیر حاضری کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخفی نہیں رہ سکتا، بلکہ یہ حرکت تو منافقین سے سرزد ہوتی تھی، اور صحابہ کرام کے بارے میں یا صفوان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4012)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الصیام 53 (1762)، مسند احمد (3/80، 84)، سنن الدارمی/الصوم 20 (1760) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Saeed al-Khudri: A woman came to the Prophet ﷺ while we were with him. She said: Messenger of Allah, my husband, Safwan ibn al-Mu'attal, beats me when I pray, and makes me break my fast when I keep a fast, and he does not offer the dawn prayer until the sun rises. He asked Safwan, who was present, about what she had said. He replied: Messenger of Allah, as for her statement "he beats me when I pray", she recites two surahs (during prayer) and I have prohibited her (to do so). He (the Prophet) said: If one surah is recited (during prayer), that is sufficient for the people. (Safwan continued: ) As regards her saying "he makes me break my fast, " she dotes on fasting; I am a young man, I cannot restrain myself. The Messenger of Allah ﷺ said on that day: A woman should not fast except with the permission of her husband. (Safwan said: ) As for her statement that I do not pray until the sun rises, we are a people belonging to a class, and that (our profession of supplying water) is already known about us. We do not awake until the sun rises. He said: When you awake, offer your prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2453


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (1762)
الأعمش مدلس وعنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 91

   سنن أبي داود2459سعد بن مالكلا تصوم امرأة إلا بإذن زوجها إذا استيقظت فصل
   سنن ابن ماجه1762سعد بن مالكنهى رسول الله النساء أن يصمن إلا بإذن أزواجهن

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2459 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2459  
فوائد ومسائل:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت و تزکیہ سے مردوں کے علاوہ خواتین بھی بہرہ ور تھیں اور ان میں آخرت کی رغبت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اس طرح کی شکایت سامنے آئی جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
حیف ہے ان لوگوں پر جو اس طرح کی مقدس ہستیوں کے ایمان کو مشکوک گردانتے ہیں۔

(2) شوہر کو حق ہے کہ بلا تخصیص وقت اپنی بیوی سے تمتع کرے، گویا حقوق تمتع اس کی ملک ہیں، بیوی کسی طرح انکار نہیں کر سکتی الا یہ کہ عذر شرعی اور معقول ہو، بلکہ انکار پر مناسب سزا بھی مباح ہے۔

(3) بعد از فاتحہ مختصر قراءت سے بھی نماز کامل ہوتی ہے۔

(4) عورت کو اس قدر لمبی نماز نہیں پڑھنی چاہیے کہ شوہر اس کے انتظار میں پیچ و تاب کھاتا رہے۔

(5) بیوی کو نفلی روزے شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں رکھنے چاہئیں۔
بعض اوقات یہ اجازت میلان طبع سے بھی سمجھی جا سکتی ہے۔

(6) جناب صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابہ میں سے تھے۔
ان کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق واقعہ افک میں بھی آتا ہے۔
ان کا سورج چڑھنے نماز پڑھنا تو واقعتا بعد از طلوع ہوتا تھا یا مراد ہے کہ بالکل آخری وقت میں پڑھتے تھے کہ سورج نکلنے والا ہوتا۔
اور اس کا سبب انہوں نے بیان کیا ہے کہ یہ گویا خاندانی عادت سی تھی کہ یہ لوگ نیند کے متوالے تھے اگر کوئی جگانے والا نہ ہوتا تو ازخود جاگ نہ سکتے تھے۔
ایک عذر یہ بھی بیان ہوا کہ یہ لوگ رات کو دیر تک پانی ڈھوتے تھے اور دیر سے سونے کی وجہ سے صبح بروقت جاگ نہ سکتے تھے۔
بہرحال اگر عذر معقول ہو تو شرعا قبول ہے کہ سونے والے پر مواخذہ نہیں، ایسی صورت میں جب جاگ آئے فورا نماز پڑھ لے۔
اس سے صبح دیر سے اٹھ کر نماز پڑھنے کے معمول کو جواز بنانے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا، اس لیے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کو یہ اجازت تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، جن کو اس قسم کی صورت حال میں بذریعہ وحی مطلع کر دیا جاتا تھا۔
اس لیے حضرت صفوان کا عذر تو معقول سمجھ لیا گیا، لیکن ہم اپنے تساہل کو بھی اسی طرح کا معقول عذر سمجھ لیں، تو اس میں کوئی معقولیت نہیں ہو گی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2459   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1762  
´شوہر کی اجازت کے بغیر عورت نفلی روزہ رکھے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو منع فرمایا کہ وہ اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1762]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہمارے فا ضل محقق اس روایت کی با بت لکھتے ہیں کہ یہ سنداً تو ضعیف ہے لیکن گزشتہ روایت اس کی شا ہد ہے جو کہ صحیح ہے علا وہ ازیں دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لئےدیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 283، 282/18، وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1762)
 لہٰذا مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلہ دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔

(2)
فرض کی ادائیگی کے لئے کسی سے اجا زت لینے کی ضرورت نہیں
(3)
نفلی روزے رکھنے میں چو نکہ خا وند کا حق متاثر ہونے کا اندیشہ ہے خصوصا جب کے عورت کثرت سے نفلی روزے رکھے اس لئے نفلی روزے میں عورت کو چاہیے کہ خا وند سے اجازت لے لے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1762   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.